پڑھنے والے گیان کے دیوتا ہیں۔ میں کم ہنر معافی چاہتا ہوں کہ آج کی نوحہ گری میں صیغہ متکلم کا عیب شامل ہو گا۔ اگر اخبار لفظوں کی بستی ہے تو کالم کو گلی سمجھنے میں کیا حرج ہے۔ لکھنے والا ایک کے بعد دوسرے دروازے پر خبر پہنچاتا ہوا نکڑ پار کر جاتا ہے۔ خبر اہم ہے، نامہ بر کو تو بہرصورت گزر جانا ہے۔ بھلے ساقی امروہوی کا مصرع ہی زیر لب کیوں نہ ہو، ’چل رہے تھے جو مرے ساتھ، کہاں ہیں وہ لوگ‘۔ اور پھر مختار صدیقی۔ ’ہائے ری دیا کہاں ہیں وہ لوگ‘۔ آج اس کیفیت کا سبب بھائی شاکر حسین شاکر سے ملنے والی خبر ہے کہ ملتان کے آخری پارسی شہری ہوشنگ پی بومن جی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہوشنگ جی کی شخصی خوبیوں کا کیا شمار، مگر اپنی خانہ ویرانی کے لئے یہی احساس بہت ہے کہ ملتان کی پھلواری سے ایک رنگ ہمیشہ کے لئے جاتا رہا۔ اس ملک کی پارسی کمیونٹی نے ہمیں جمشید نسرواں جی مہتہ، دراب پٹیل، بپسی سدھوا، اردشیر کائوس جی اور جمشید مارکر جیسے ان گنت لعل و گہر عطا کئے۔
شاکر بھائی نے بتایا کہ 1972تک ملتان میں 70 پارسی رہائش پذیر تھے لیکن 2011ءآتے آتے وہاں صرف دو پارسی رہ گئے، مسز بلیموریا اور ہوشنگ جی۔ کیوں؟ اس کا جواب مجھ سے نہیں پوچھئے۔ درویش نے دل آسائی کے لئے شاکر بھائی سے کہا کہ پارسی شہری وطن یا دنیا چھوڑ گئے مگر آپ کے شہر میں بہت سے پارس باقی ہیں۔ اگرچہ دل میں حیدر گردیزی، قاضی عابد اور خالد سعید کے اوجھل ہونے کا ملال موجود تھا پھر بھی کچھ نام گنوانا چاہے، اسلم انصاری، صلاح الدین حیدر، ڈاکٹر انوار احمد اور عابد عمیق۔شاکر بھائی بات کاٹتے ہوئے بولے، گویا، آپ کو خبر نہیں ہوئی؟ پوچھا کیسی خبر؟ بتایا کہ عابد عمیق گزشتہ دسمبر میں رخصت ہو گئے تھے۔ مجھے کیسے خبر ہوتی؟ یہاں لاہور میں کتنے لوگ جانتے ہیں کہ کم از کم دو نسلوں کو جدید اردو شعر کی تعلیم دینے والے محمد خالد 14 جون 2020 کو کورونا کی وبا میں چل بسے تھے۔ اب کسے یاد ہو گا کہ ملتان میں عابد عمیق لاہور کے محمد خالد کا عکس تھے۔ ضیا آمریت کی مزاحمت میں جو استاد کھدیڑے گئے، ان میں عابد عمیق بھی شامل تھے۔ ملتان کے باسی کا تلہ گنگ کے مفصلات میں تبادلہ کیا گیا تھا۔ انگریزی ادب کے استاد عابد صاحب پنجابی زبان میں شعر کہتے تھے۔ برسوں سے گوشہ نشین تھے۔ اب تو ان کے تلازمہ میں ڈاکٹر ابرار احمد بھی نہیں رہے۔ اسی پیچ و تاب میں بستر پر جا لیٹا اور آنکھیں بند کر لیں۔
درویش نے اس دیس میں خواب کے دو ٹکڑوں میں زندگی کی۔ دن کے خوابوں کا احوال تو ابنائے وطن سے مماثل رہا۔ ’جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی‘۔ اصل امتحان رات کے اندھیرے میں پیش آتا تھا۔ علی افتخار جعفری نے لکھا تھا، ’صبح پھر آنکھ کھلے گی اسی ویرانے میں / نیند آتی ہے تو یہ ڈر نہیں سونے دیتا‘۔ اپنا عالم مگر میراؔ جی نے بیان کیا تھا۔ ’کیسے کھلا یہ رین جھروکہ، کس نے کنڈی کھولی‘۔ عمر بھر ایک ہی اذیت ناک خواب سے واسطہ رہا۔ ایک زیر تعمیر بستی ہے۔ جہاں کوئی آشنا صورت نہیں اور راستہ نامعلوم ہے۔ بے وطنی کا عذاب ہے اور بے سروسامانی کا اضطراب۔
مجھے معلوم ہے، فرائیڈین نفسیات کا ایک مبتدی طالب علم بھی بتا سکتا ہے کہ یہ تو ذہنی دبائو کی بدیہی علامات ہیں۔ مگر گزشتہ شب ہوشنگ جی اور عابد عمیق کے ارتحال میں معلوم اور نامعلوم تعلق کی خلیج میں ڈبکیاں کھاتے آنکھ جھپکی تو ایک نیا منظر دیکھا۔ معلوم ہوا کہ مجھے ایک تمثیل لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور میں حسب معمول خیال اور لفظ میں ربط پیدا کرنے کی آزمائش میں ہوں۔ اسی کشمکش میں گویا کسی نے ہاتھ پکڑ کر پیچھے گھسیٹ لیا۔ اب میں اندھیرے میں تھا اور اسٹیج سے نہایت دلآویز طربیہ موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ ایک نوجوان خاتون دیوار پر ایسے نقش و نگار بنا رہی تھیں جن میں جادو کا سا اثر تھا۔ ان گنت ننھے ننھے بچے ہر طرف یوں رقص کر رہے تھے گویا سیدھے ہانس اینڈرسن کی کہانیوں سے نکل کر آئے ہیں۔ فضا میں جشن کی سرخوشی تیر رہی تھی۔ خواب ہی کے عالم میں خیال آیا کہ گویا ساری خرابی ہماری ہی تعمیر میں مضمر ہے۔ اگر ہم پس منظر میں چلے جائیں تو شاید ہماری جگہ آنے والے اس زمیں کو جنت میں ڈھال سکیں گے۔ یہ خیال آتے ہی آنکھ کھل گئی۔ رات کا آخری پہر تھا۔ شہرت بخاری یاد آ گئے، ’خواب میں موتی رول رہی ہے چشم گہر آباد‘۔ بستر سے نکل کر کرسی پر آن بیٹھا۔ چند لمحوں کی ملکوتی آسودگی کے بعد اب اسی منظر سے واسطہ تھا جو نصف صدی سے ان آنکھوں نے مسلسل دیکھا ہے۔ لاہور کا وہ طالب علم یاد آیا جو دسمبر 1968 میں لاہور کے جی پی او کے سامنے ایوب آمریت کے خلاف جلوس میں پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ شاید اس کا نام محمد عطا تھا۔ ساہیوال کی نابینا لڑکی صفیہ بی بی یاد آئی جسے حدود آرڈیننس کی چیرہ دستی نے قید اور کوڑوں کی سزا سنائی تھی۔ نوجوان طالبہ بشریٰ زیدی یاد آئی جس کی اپریل 1985میں حادثاتی موت نے تین دہائیوں کیلئے کراچی کی روشنیاں گل کر دی تھیں۔ دینی مدرسوں کے وہ پانچ معصوم طالب علم یاد آئے جو فروری 1989ءمیں اسلام آباد کی سڑکوں پر طالع آزما ئوں کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ تربت کا نوجوان حیات بلوچ یاد آیا جو اپنے والدین کی موجودگی میں کھجوریں اتارتے ہوئے موت کی وادی میں اتر گیا تھا۔ اگست 1948 میں بابڑا کے معصوم شہیدوں سے گزشتہ جمعرات وزیر آباد میں قتل ہونے والے معظم گوندل تک نامعلوم ہوائوں کی زد میں آ کر بجھنے والے چراغوں کی تاحد نظر قطار یاد آئی۔ خواب کی لمحاتی آسودگی خواب ہو گئی۔ یہ البتہ معلوم ہو گیا کہ ہوشنگ جی کی موت سے شہر کیسے غریب ہوتے ہیں۔ اختر شیرانی نے لکھا تھا۔
دیر کیا ہے آنے والے موسمو!
دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے