موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کا سربراہی اجلاس ’کوپ 27‘ کا گزشتہ روز مصر سے آغاز ہوگیا جہاں کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں سے پیچھے ہٹنے کے خلاف انتباہ اور امیر ممالک سے قدرتی آفات کے بعد غریب ممالک کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ چند ماہ کے دوران قدرتی آفات نے دنیا بھر میں ہزاروں افراد کو ہلاک، لاکھوں کو بے گھر اور اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔
بڑے پیمانے پر سیلاب نے پاکستان اور نائیجیریا کے کئی علاقوں کو تباہ کر دیا، افریقہ اور مغربی امریکا میں خشک سالی ہوئی، سمندری طوفانوں نے کیریبین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 3 براعظموں کو بدترین گرمی کی لہروں کا سامنا رہا۔
شرم الشیخ کے بحیرہ احمر کے ریزورٹ میں ہونے والی یہ کانفرنس یوکرین کے خلاف روس کی جنگ، توانائی بحران، بڑھتی مہنگائی اور کورونا کے دیرپا اثرات جیسے مسائل سے بھرپور سال میں منعقد ہورہی ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے ایگزیکٹو سیکریٹری سائمن اسٹیل نے کہا کہ وہ 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 45 فیصد کم کرنے کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تاکہ گلوبل وارمنگ کو 19 ویں صدی کے اواخر میں 1.5 ڈگری سیلسیس والی سطح تک محدود کیا جا سکے۔
سائمن اسٹیل نے 13 روزہ سربراہی اجلاس کے آغاز میں کہا کہ ’ہم لوگوں کو احتساب کا پابند کریں گے، چاہے وہ صدور ہوں، وزرائے اعظم ہوں یا اداروں کے سربراہان ہوں‘۔
’کوپ 26‘ کے سابق سربراہ آلوک شرما نے کہا کہ ’اگرچہ میں جانتا ہوں کہ دنیا بھر کے رہنماؤں نے رواں برس مختلف چیلنجز کا سامنا کیا لیکن یہ واضح ہونا چاہیے کہ موجودہ لمحہ اہم ہے اور بروقت اقدام ہی موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کو مؤخر کر سکتا ہے‘۔
انہوں نے سوال کیا کہ دنیا اور عالمی رہنماؤں کو مزید کتنی ویک اپ کالز کی ضرورت ہے؟
اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم نے کہا کہ گزشتہ 8 برس دنیا کی رقم شدہ تاریخ کے گرم ترین سال رہے، جس میں سطح سمندر میں اضافے، گلیشیئر پگھلنے اور گرمی کی لہروں میں تیزی آئی۔
سربراہ اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس نے ایک بیان میں کہا کہ ’کوپ 27‘ کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا سیارہ ایک پریشان کن انتباہ جاری کررہا ہے۔
مندوبین نے گزشتہ روز مالی نقصان کے مسئلے کو ’کوپ 27‘ کے ایجنڈے میں شامل کرنے پر اتفاق کیا، مصر کے ’کوپ 27‘ کے صدر سامح شوکرے نے کہا کہ ’ایجنڈے میں اس مسئلے کی شمولیت قدرتی آفات کے متاثرین کے لیے یکجہتی اور ہمدردی کے احساس کی عکاسی کرتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم سب کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے نقصان کے لیے فنڈنگ پر بات کرنے کا مطالبہ کیا‘۔
سامح شوکرے نے مزید کہا کہ امیر ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشتوں کو مضبوط بنانے اور مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی اہلیت پیدا کرنے میں مدد کرنے کے لیے ہر سال 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ تاحال پورا نہیں کیا، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ زیادہ تر موسمیاتی فنانسنگ قرضوں پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس اس انداز میں آگے بڑھنے کا موقع نہیں ہے، ہمیں اس موجودہ خطرے کے بارے میں اپنے نقطہ نظر تبدیل کرنا ہوگا، ایسا حل ضروری ہے جو یہ ثابت کرے کہ ہم اس مسئلے میں گھرے کسی بھی ملک کو تنہا نہ چھوڑنے میں سنجیدہ ہیں‘۔