پاکستان

پاکستان میں بڑھتے گیس بحران کی وجوہات کیا ہیں اور یہ صارفین کو کیسے متاثر کرے گا؟

Share

پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کافی سال سے معمول بن چکا ہے۔ ملک میں سردیوں کی آمد ہے اور اس بار بھی ملک میں گیس کی کمی کی وجہ سے تجارتی اور گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گے۔

ملک کے وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے بھی گیس کی کمی کے بارے میں چند ہفتے قبل آگاہ کیا تھا۔ ایک پریس کانفرنس میں مصدق ملک نے کہا کہ حکومت کی جانب سے گیس لوڈ مینجمینٹ پلان ترتیب دیا جا رہا ہے تاکہ مختلف شعبوں کو ضرورت کے مطابق اتنی گیس فراہم کی جا سکے کہ وہ گیس کی کمی سے کم متاثر ہوں۔

پاکستان میں گیس کا بحران گزشتہ سال بھی شدید تھا جب ملک میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور اس وقت کے وزیر توانائی حماد اظہر نے گھریلو صارفین کو دن میں تین وقت (جن اوقات میں ناشتہ اور کھانا تیار کیا جاتا ہے) گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان میں گیس، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان انرجی بک کے مطابق ملک میں توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد گیس سے پورا کیا جاتا ہے جو ملکی پیداوار اور درآمدی گیس پر مشتمل ہے۔

گیس کے شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں گیس کی کمی کی وجوہات میں اس کی ملکی پیداوار میں مسلسل ہونے والی کمی کے ساتھ عالمی منڈی میں گیس کی قیمت میں اضافہ ہے۔

پاکستان کے لیے اب مہنگی درآمدی گیس خرید کر اسے کم نرخوں پر مقامی صارفین کو بیچنا ممکن نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ مزید بڑھ سکتا ہے، جو ملک کی وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ تین سال میں 350 ارب روپے سے 650 ارب روپے ہو گیا۔

گیس کی کمی کیوں ہوئی؟

پاکستان میں گیس بحران نے گزشتہ چند سال میں شدت اختیار کی ہے اور اس سال اس بحران میں مزید شدت آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کی حکومت کو مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کرنے کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں جب آر ایل این جی سستی تھی تو اس وقت اس کے طویل مدتی معاہدے نہ کرنے پر ذمہ دار ٹھہرایا۔

وزیراعظم کے کوآرڈینٹر برائے توانائی بلا ل اظہر کیانی نے اس سلسلے میں بتایا کہ کورونا کے وقت عالمی منڈی میں آر ایل این جی سستی تھی تو اس وقت تحریک انصاف کی حکومت نے کوئی طویل مدتی معاہدہ نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو یہ نقصان ہوا کہ جب عالمی منڈی میں گیس کی قیمت اوپر چلی گئی تو اس کی خریداری پاکستان کے لیے مشکل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی بھی پاکستان کو درآمدی گیس ان آر ایل این جی کے معاہدوں پر مل رہی ہے جو نون لیگ کی سابقہ حکومت کے دور میں ہوئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ یورپ میں گیس کی طلب سردی کی وجہ سے بڑھ گئی ہے اور روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے گیس سپلائی متاثر ہوئی ہے، جس نے قیمتوں کو اوپر کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یورپین ملکوں کے پاس وسائل ہیں اور وہ اپنے صارفین کے لیے مہنگی گیس بھی خرید رہے ہیں لیکن پاکستان کے پاس بہت زیادہ وسائل نہیں کہ وہ یہ مہنگی گیس خرید سکے۔

گیس کے شعبے کے ماہر فرحان محمود نے اس سلسلے میں بتایا کہ گیس کی کمی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

ان کے مطابق یہ بات تو صحیح ہے کہ عالمی منڈی میں درآمدی گیس بہت مہنگے داموں بک رہی ہے اور پاکستان کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ گیس خرید کر ڈیڑھ سے دو ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر مقامی صارفین کو مہیا کرے۔

انھوں نے کہا کہ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ ملک میں مقامی گیس کی پیداوار بھی مسلسل کمی کا شکا ر ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گیس کی ویل ہیڈ پرائس بھی نہیں بڑھی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر گیس کی پیداوار کو پر کشش نہیں بنایا جا سکا۔

پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلمپنٹ اکنامکس کی سینیئر ریسرچ اکانومسٹ عافیہ ملک کے مطابق ملک میں امن و امان کی صورتحال نے بھی ملک میں گیس ذخائر کی دریافت میں رکاوٹ کھڑی کی۔

انھوں نے کہا کہ بلوچسستان میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے وہاں اس کی دریافت نہ ہو سکی کیونکہ اس کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

پاکستان کتنی گیس کی کمی کا شکار ہے؟

پاکستان میں گیس کی طلب درآمدی اور مقامی ذرائع سے پوری کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان قطر اور ای این آئی سے لانگ ٹرم معاہدوں کے تحت گیس لے رہا ہے۔

گیس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے سپاٹ کارگو یعنی عالمی منڈی میں موجودہ قیمت پر دیے جانے والے ٹنیڈرز کے سامنے کوئی بولی اکتوبر کے مہینے میں موصول نہیں ہوئی۔

اس ٹینڈر کے تحت پاکستان کو اگلے پورے سال میں 12 ایل این جی کارگو منگوانے تھے، جو جنوری سے لے کر دسمبر تک منگوائے جانے تھے تاہم ان کے سامنے حکومت کو کوئی بولی نہیں ملی۔

پاکستان میں گیس کی طلب و رسد پر بات کرتے ہوئے فرحان محمود نے بتایا کہ ملک میں گیس کی مقامی پیداوار اس سال گزشتہ سال کے مقابلے میں نو سے دس فیصد کم ہے جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 0.2 بلین کیوبک فیٹ درآمدی گیس بھی کم ہے۔

فرحان نے بتایا کہ ملک کی روزانہ کی بنیادوں پر گیس کی ضرورت 1.4 ارب کیوبک فیٹ ہے جو سردیوں میں طلب بڑھ جانے کی وجہ سے 4.5 ارب کیوبک فیٹ روزانہ تک چلی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں مقامی گیس کی پیداوار 3.1 ارب کیوبک فیٹ روزانہ ہے۔ ’کم مقامی پیداوار کو درآمدی گیس سے پورا کیا جاتا ہے تاہم مہنگی گیس ہونے کی وجہ سے اس سال اب تک 0.2 ارب کیوبک فیٹ روزانہ کم گیس درآمد کی گئی ہے۔‘

اکتوبر کے مہینےمیں پاکستان کی جانب سے جنوری سے لے کر دسمبر 2023 تک ہر مہینے ایک کارگو منگوانے کے لیے دیا جانے والا ٹینڈر بھی کوئی بولی حاصل نہ کرسکا اور اس وقت پاکستان کو صرف لانگ ٹرم معاہدوں کے تحت درآمدی گیس مل رہی ہے جو ملک کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے اور اس سال اب تک درآمدی گیس بھی 0.2 ارب کیوبک فیٹ روزانہ کم درآمد کی گئی ہے۔

روس یوکرین جنگ کی وجہ سے گیس سپلائی متاثر ہوئی ہے، جس نے قیمتوں کو اوپر کی سطح پر پہنچا دیا ہے

کن شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کی جائے گی؟

پاکستان میں گیس کی مختلف شعبوں کو فراہمی پر بات کرتے ہوئے عافیہ ملک نے بتایا کہ گیس کی فراہمی میں سب سے پہلے گھریلو و کمرشل صارفین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد پاور اور زیرو ریٹیڈ انڈسٹری، اس کے بعد فرٹیلائز اور عام انڈسٹری، اس کے بعد سیمنٹ اور آخر میں سی این جی شعبے کو گیس فراہم کی جاتی ہے۔

وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں گیس مینجمینٹ لوڈ پلان تیار کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مختلف شعبوں کو مختلف اوقات میں گیس فراہم کی جائے گی۔

پاکستان کی وزارت توانائی میں ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ پلان تیار کر لیا گیا ہے اور حکومت اس کا کچھ دن میں اعلان کر دے گی۔

ان کے مطابق اس سال گیس کی کمی زیادہ ہو گی اور اس پلان کے تحت نومبر سے لے کر فروری کے مہینے کے وسط تک گیس فراہمی کی ترجیحات طے کی گئی ہیں، جس میں گھریلو صارفین کو گیس کی دستیابی پہلی ترجیح ہو گی اور انھیں 24 گھنٹوں میں تین اوقات میں گیس فراہم کی جائے گی۔

زیرو ریٹڈ انڈسٹری کو بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی۔ تندوراور ہسپتالوں کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔

بجلی کی پیداوار کے لیے گیس کی رسد تیسری بڑی ترجیح ہو گی۔ پاور پلانٹس کو 15 فیصد گیس کی کمی کا سامنا ہو گا۔ جنرل انڈسٹری کے لیے گیس کی سپلائی کے اوقات مقرر کیے جائیں گے جبکہ سیمنٹ ،کھاد اور سی این جی انڈسٹری کے لیے گیس کی سپلائی دستیابی سے مشروط ہو گی۔

فرحان محمود نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے پاور پلانٹس کو گیس کی بجائے کوئلے پر چلائے کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت بہت نیچے آگئی ہے اور مہنگی درآمدی گیس کی بجائے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی کم ہو گی اور بچ جانے والی گیس دوسرے شعبوں میں کام آ سکے گی، جس سے گیس بحران کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ترجیجات طے کیے جانے کے باوجود سارے شعبے گیس کمی سے متاثر ہوں گے۔