اس وقت ایک گمبھیر نوعیت کا سیاسی تعطل و بحران، حکومت، سیاسی جماعتوں اور ’فیصلہ ساز ادارے‘ کو ایسی جگہ پر لے آیا ہے جہاں سے آگے گلی بند ہے اور پیچھے پلٹنے کو کوئی تیار نہیں۔
رواں برس ماہِ اپریل میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان احتجاجی سیاست کو ایک ایسے مرحلے میں داخل کر چکے ہیں جہاں پر سیاسی تصادم کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔
وزیرِ آباد میں کنٹینر پر فائرنگ کے بعد پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تھما نہیں جس سے سیاسی وسماجی سطح پر کشیدگی میں اضافے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟
مگرموجودہ سیاسی بحران کیونکر رُونما ہوا؟ اس کا پس منظر واضح کیے بِنا، شاید اس سے نکلنے کا راستہ تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا سب سے پہلے سیاسی بحران کی ابتدا سے لمحہ موجود تک، اس کی شدت کا اِجمالی جائزہ ضروری ہے۔
جب میاں نواز شریف وزیرِ اعظم نہ رہے
جس سیاسی بحران کا سامنا لمحۂ موجود میں درپیش ہے، اس کا آغاز شاید اُسی وقت ہوگیا تھا جب 2014 میں پاکستان تحریکِ انصاف نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مل کر دھرنا دیا تھا۔
اس دھرنے نے سیاسی جماعتوں کے مابین تعلقات میں فاصلوں کو بڑھاوا دیا اور باہمی مذاکرات کے دروازے پر قفل لگا دیا۔ دھرنے کے اثرات ابھی باقی تھے کہ پانامہ سکینڈل منظر عام پر آ گیا، جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ محفوظ نہ رہ سکی۔
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما پرویز رشید نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ سیاسی تعطل اور بحران کی بنیاد 2014 کے دھرنے میں رکھی گئی تھی۔ اُس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کو مائنس کرنا چاہتی تھی۔‘
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سیاسی بحران کی بڑی وجہ عمران خان کی ہٹ دھرمی ہے۔ جب وہ حکومت میں تھے، ہم نے بارہا کہا کہ تعاون کی پالیسی جاری رکھیں گے، مگر اُن کا ہمیشہ یہ اصرار رہا کہ سیاسی جماعتوں سے بات نہیں کریں گے۔‘
پی ڈی ایم اتحاد کی تشکیل
سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار کے پہلے سال کی کارکردگی پر زیادہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ بعد میں کورونا وبا نے دُنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا تو پاکستان بھی زَد میں آ گیا۔
پہلی بار سیاسی سطح پر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو پی ڈی ایم کے قیام سے دھچکا لگا۔ اگر پی ڈی ایم کا اتحاد وجود میں نہ آتا تو شاید موجودہ سیاسی بحران کی نوعیت مختلف ہوتی۔
سیاسی سطح پر بڑی تبدیلی کا عندیہ اُسی وقت ملنا شروع ہو گیا تھا جب فوج کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کو نیوٹرل ہونے کا اشارہ دیا گیا تھا۔ عمران خان نے مختلف جلسوں میں فوج کے نیوٹرل ہونے پر تنقید شروع کی تو اُن کی بے چینی اور اضطراب بھی واضح ہوتا چلا گیا۔
رواں برس اپریل میں عمران حکومت کا خاتمہ ہوا مگر موجودہ سیاسی بحران کی ایک وجہ نومنتخب حکومت کا عوام کو فوری ریلیف نہ دے پانا بھی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شہباز حکومت شروع میں بجلی کے بحران، مہنگائی اور تیل کی قیمتوں پر قابو پا لیتی تو عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کو عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی نہ ملتی۔
دوسری طرف پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے عوامی سطح پر عمران خان کو نئی مقبولیت سے ہمکنار کیا۔ اگر انتخابات کے نتائج مختلف آتے تو شاید لانگ مارچ کے لیے اُن کا موجودہ اعتماد متزلزل ہوتا۔
فوجی پریس کانفرنس اور لانگ مارچ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا جب ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ یہ پریس کانفرنس ادارے اور پی ٹی آئی کے مابین ایک لکیر کھینچنے کے مترادف قرار دی جا سکتی ہے۔
لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز موجودہ سیاسی تناؤ کو نیا موڑ دینے کا باعث بنا۔ لانگ مارچ جب وزیرِ آباد پہنچا تو عمران خان کے کنٹینر پر گولیاں چل گئیں، جس میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے بعض رہنما زخمی ہوئے۔ اس حملے نے عمران خان کے غصے میں مزید اضافہ کردیا اور اُن کی جانب سے تین افراد کو ذمہ دار قراردیا گیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ اور آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس شعبہ کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا مطالبہ کیا گیا۔
موجودہ بحران کے پس منظر کے بعد اب اس آرٹیکل کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔
گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے؟
رواں برس پانچ جون کو وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے لاہور میں اپنے ایک خطاب میں کہا تھا ’ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو گرینڈ ڈائیلاگ ضروری ہے۔‘
بعد ازاں مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا ’وزیرِ اعظم نے تمام سٹیک ہولڈرز سے گرینڈ ڈائیلاگ کا کہا ہے، جس میں فوج اور عدلیہ کے ادارے بھی شامل ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس گرینڈ ڈائیلاگ میں پاکستان تحریکِ انصاف بھی شامل ہو۔‘
واضح رہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز رضا ربانی نے 10 اگست 2017 کو دی تھی۔ اُس وقت وہ چیئرمین سینیٹ تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’وزیرِ اعظم، ملٹری، بیوروکریسی اور چیف جسٹس ادارہ جاتی مذاکرات کا حصہ بنیں۔‘
مگر مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما پرویز رشید ایسے کسی ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے آئین میں سب کی ذمہ داریاں اور حد بندیوں کا تعین ہے۔ ادارے اپنے حلف کی پاسداری کریں۔ اگر ادارے حلف کی پابندی اور سٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داریوں کا خیال نہیں کریں گے تو کسی ڈائیلاگ کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا ’اس سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ گفتگو کے ذریعے ممکن ہے مگر عمران خان کا خیال ہے کہ تصادم اور دباؤ سے یہ راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ اگر سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ موجود ہے تو محض ڈائیلاگ سے، یہ مشروط طور پر نہیں نکلے گا۔ ہم تو ہر طرح کے ڈائیلاگ کی دعوت دے چکے ہیں۔‘
گرینڈ ڈائیلاگ کے سوال پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی طرح کے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے مگر اس کی پہل حکومت کو کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کا یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ فوری انتخابات ہوں۔ اس ایجنڈے پر سارا احتجاج ختم ہوسکتا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سید جعفر احمد بھی پرویز رشید کی حمایت کرتے ہیں اُن کا کہنا تھا کہ ’کسی گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت نہیں۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کے مابین تعلق کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں کسی طرح پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں واپس لے آئیں تو یہ سارا بحران ختم ہو جائے گا۔‘
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس بھی گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’گرینڈ ڈائیلاگ کسی بڑے ایشو پر ہوتے ہیں۔ اگر ایسے کسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تو انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اگلی حکومت کرے اور اہم ستونوں کو مل کر کرنا چاہیے۔‘
فوری انتخابات کی تاریخ کا اعلان سیاسی جمود توڑ سکتا ہے؟
عمران خان کا سارا زور نئے انتخابات کے فوری انعقاد پر ہے جبکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں وقتِ مقررہ پر انتخابات کی خواہاں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں فریقین کو اس ایشو پر کیسے الیکشن کی ایسی تاریخ پر راضی کیا جا سکتا ہے جو دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو اور سیاسی بحران اپنے انجام کو پہنچ جائے؟
پی ٹی آئی رہنما میاں محمود الرشید کا کہنا تھا ’سیاسی بحران اور جمود کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات ہوں اور فوری و منصفانہ و شفاف انتخابات کا اعلان ہ۔ پاکستان تحریکِ انصاف منصفانہ و شفاف اور فوری انتخابات کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔‘
’یہ مذاکرات ضروری ہیں، ان سے ہی راستہ نکلے گا۔ ہماری طرف سے یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ مارچ اپریل میں الیکشن ہوں، حکومت اور اُن کی اتحادی جماعتیں یہ کہہ سکتی ہیں کہ نہیں الیکشن اگست میں ہوں گے، تو اس طرح کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، مگر اس کا مرکزی نقطہ انتخابات کا فوری انعقاد ہے۔‘
یہی سوال جب مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کے سامنے رکھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ نئے انتخابات میں کوئی ایشو نہیں۔
’نئے انتخابات کی تاریخ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ دو صوبوں میں اُن کی حکومت ہے۔ یہ جب چاہیں، انتخابات ہو سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو پارلیمان کو چلانا چاہیے۔ پارلیمان چلتی رہے اور انتخابات وقت پر ہوں۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ جلد انتخابات کے انعقاد کے حامی نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ہماری طرف سے واضح پوزیشن ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں۔ پی ٹی آئی مطالبات کرتی ہے، دباؤ اور شرائط کا تقاضا کرتی ہے، مگر ایسا نہیں ہو سکتا۔ جمہوری کلچر پنپتا رہے تو راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔‘
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا خیال ہے کہ ’موجودہ سیاسی بحران، عمران خان کی ضد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اِن کے بچگانہ مطالبے اور بے جا ضد نے سب کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔‘
مظہر عباس سمجھتے ہیں ’حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین نئے انتخابات کے انعقاد پر مذاکرات ہوں۔ انتخابات کی تاریخ پر دونوں طرف سے لچک دکھائی جائے تو درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ حکومت بھی لچک دکھائے اور پی ٹی آئی کو بھی احتجاج ختم کر دینا چاہیے۔ بات چیت سے مسئلہ حل ہو گا اور سیاسی تنازع بھی ختم ہو گا۔‘
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر فاروق حسنات کا خیال ہے کہ ’موجودہ سیاسی بحران اور ڈیڈلاک کا خاتمہ اسٹیبلشمنٹ سے ممکن نہیں کیونکہ یہ تو حکومت کے ساتھ مل چکی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ مثبت و غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے اور حکومت سے کہے کہ جلدی الیکشن کروائے تو سیاسی جمود کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔‘
اہم تعیناتی کے بعد سیاسی تعطل و بحران کا خاتمہ ممکن ہے؟
بعض سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ بحث موجود ہے کہ اہم تعیناتی کے بعد سیاسی بحران بھی ٹل جائے گا۔ بعض حلقے تو یہاں تک کہتے پائے جا رہے ہیں کہ ادارے کے اندر سے جو حمایت پی ٹی آئی کو حاصل ہے، وہ بھی نئی تعیناتی سے ختم ہو سکتی ہے۔
جب اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید سے یہ پوچھا گیا کہ نئی تعیناتی موجودہ سیاسی ڈیڈلاک کا خاتمہ کرسکے گی تو اُن کا کہنا تھا کہ مفروضوں پر بات کرنا مشکل ہے۔
’اُمید کی جا سکتی ہے کہ جو نقصان ہو چکا ہے، وہ نقصان دوبارہ نہ کیا جائے اور نئے تجربات بھی نہیں ہونے چاہیے۔ سیاسی کشمکش تو محض عمران خان کی جانب سے ہے۔ باقی سب سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں اور پی ٹی آئی ایک طرف ہے جبکہ ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر حکمران جماعت کے خلاف صف آرا ہوتی تھیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا خیال مختلف ہے۔ اُن کا کہنا ہے ان کے خیال میں اہم تعیناتی اس سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی حل نہیں ’چونکہ اس تعیناتی میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں، اس لیے عمران خان اس تعیناتی پر جتنا مرضی دباؤ بڑھائیں، وہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔‘
پی ٹی آئی رہنما میاں محمود الرشید اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ایک زندہ حقیقت قرار دیتے ہیں۔
’اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں، اگر مزید دوچار ماہ برقرار رہے تو غیر یقینی صورت حال میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور سیاسی بحران بھی شدت اختیار کر جائے گا۔‘
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کے مطابق اہم تعیناتی کے حوالے سے اس سیاسی جمود کو نہیں ختم کیا جا سکتا۔
’اب تو اس تعیناتی کے حوالے سے وقت ہی نہیں بچا۔ البتہ اس تعیناتی کے بعد کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق ’آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے عمران خان کا مؤقف قطعی لغو ہے۔ اگر نیا آرمی چیف آزادانہ اور شفاف انتخابات کروائے اور انتخابات کی کوئی تاریخ سامنے آ جائے تو اس سیاسی تعطل کو توڑا جا سکتا ہے۔‘
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ نیا آرمی چیف جو بھی ہو، اُس کو ادارہ مقدم ہو گا۔ اس وقت سیاسی رسہ کشی کے تین کونے ہیں۔ یعنی حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ۔ تینوں فریقین کو ماننا پڑے گا کہ اُن سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اِن غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔‘