’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری اب اتنی پُرکشش نہیں رہی۔‘ وہ سکیم جو خصوصاً سمندر پار پاکستانیوں کے لیے رقم کی منتقلی کا ذریعہ بنی، اب اس کے بارے کچھ ایسا تاثر بن رہا ہے۔
پاکستان میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں موجودہ مالی سال میں اکتوبر کے مہینے تک سرمایہ کاری پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر تک پہنچی۔ اکتوبر کے مہینے میں ان اکاؤنٹس میں ہونے والی سرمایہ کاری کا حجم چودہ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر رہا۔
ان اکاونٹس میں اکتوبر کے مہینے میں ہونے والی سرمایہ کاری کا حجم ستمبر کے مقابلے میں کم رہا تاہم یہ کمی صرف اکتوبر یا ستمبر کے مہینوں میں ہی نہیں دیکھی گئی بلکہ یہ رجحان کئی مہینوں سے جاری ہے۔
مارچ کے مہینے میں ان اکاؤنٹس میں 29 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تاہم اس کے بعد ان میں مسلسل کمی کا رجحان نظر آرہا ہے۔
واضح رہے کہ سابقہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے دو سال قبل روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کا منصوبہ پاکستان اور ملک سے باہر رہنے والوں کے لیے متعارف کرایا گیا تاہم ان کے اثاثے بیرون ملک ڈکلیئر ہونا ضروری تھا۔
ان اکاونٹس میں بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کرتے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے بارے میں ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی ہمدرد ہے اور پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی جانب سے سرمایہ کاری میں کمی کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں بی بی سی نے بیرون ملک پاکستانیوں سے اس سلسلے میں معلومات جمع کیں جو سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنیں اور اس کے پس پردہ وجوہات سیاسی ہیں یا معاشی؟
’اب ان اکاونٹس میں سرمایہ کاری منافع بخش اور پُرکشش نہیں‘
متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں مقیم محمد عارف تحریک انصاف کے ہمدرد ہیں تاہم انھوں نے گذشتہ مہینے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری میں اضافہ کر دیا۔
عارف ایک تیل کمپنی میں کام کرتے ہیں اور اپنی بچت ان اکاؤنٹس میں ڈالتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تو ایک کمپنی میں ملازم ہیں اور اپنی تنخواہ میں سے کچھ پیسے بچا کر ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کر لیتے ہیں تاکہ کچھ نفع ملتا رہے۔
انھوں نے کہا انھیں اچھا منافع ملا، اس لیے انھوں نے سرمایہ کاری بڑھا دی۔ ان کی سرمایہ کاری پاکستانی روپے میں ہے اور انھیں اس پر اچھا نفع حاصل ہوتا ہے۔
دوسری جانب برطانیہ سے زاہد منیر نامی سرمایہ کار کی کسی خاص جماعت سے کوئی وابستگی نہیں تاہم انھوں نے ان اکاؤنٹس میں ہونے والی سرمایہ کاری کو کافی کم کر دیا ہے۔
اس کی وجہ کیا بنی، اس پر وہ کہتے ہیں کہ اب ان اکاونٹس میں سرمایہ کاری اتنی منافع بخش اور پُرکشش نہیں رہی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ فارن کرنسی کی صورت میں اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کر رہے تھے۔
’پہلے فارن کرنسی میں ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پُرکشش تھی لیکن اب کچھ اب عالمی مارکیٹ میں کچھ دوسرے سرمایہ کاری کے ذرائع بھی میسر ہو چکے ہیں‘ جن کی وجہ سے اب وہ ان اکاؤنٹس میں زیادہ سرمایہ نہیں لگا رہے۔‘
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری کتنی کم ہوئی اور اس کی وجہ کیا ہے؟
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کا آغاز ستمبر 2020 میں ہوا جب پہلے مہینے ستر لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جو مئی 2021 میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس مہینے میں 31 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ان اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی جبکہ مارچ 2022 میں ان اکاؤنٹس میں 29 کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی۔
اس کے بعد دو مہینوں میں سرمایہ کاری میں کمی دیکھی گئی تاہم جون میں پھر اس سرمایہ کاری میں تھوڑی بہتری نظر آئی۔ مگر جولائی سے اس سرمایہ کاری میں مسلسل کمی کا رجحان نظر آرہا ہے۔
جولائی میں سرمایہ کاری کا حجم تقریباً 19 کروڑ ڈالر تھا جو اگست میں ساڑھے اٹھارہ کروڑ ڈالر ہوگیا۔ ستمبر کے مہینے میں اس کا حجم سولہ کروڑ اسی لاکھ ڈالر ہو گیا جبکہ اکتوبر کے مہینے میں یہ چودہ کروڑ ساٹھ ڈالر تک رہ گئی۔
سب سے زیادہ سرمایہ کاری نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ روایتی میں بھی گئی ہے۔ اس کے بعد نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ اسلامی میں جبکہ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری بہت کم نظر آئی۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں کم ہوتی سرمایہ کاری کے بارے میں جب مالیاتی شعبے کے ماہرین سے بات کی گئی اور پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا ملک میں سیاسی تبدیلی ہے، تو ان کے مطابق اس میں سیاسی صورتحال کا تعلق ضرور ہے۔
مالیاتی شعبے کی ماہر ثنا توفیق نے کہا کہ ’سیاسی صورتحال نے یقینی طور پر ان اکاؤنٹس میں ہونے والی سرمایہ کاری کو کسی حد تک متاثر کیا ہے۔‘
’سیاسی صورتحال کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے رسک (خطرہ) بڑھا ہے اور لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں محتاط ہوئے ہیں۔‘
مالیاتی اور سرمایہ کاری شعبے کے ماہر فہد رؤف نے بتایا کہ ملک کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کا ملکی اعتبار سے رسک بڑھا ہے اور اس لیے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ کو کم کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سیاسی صورتحال اور معاشی استحکام کا گہرا تعلق ہوتا ہے اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال نے بھی اس پر کچھ اثر ڈالا ہے۔
ماہرین نے سرمایہ کاری میں کمی کی اصل وجہ معاشی پہلو کو قرار دیا ہے۔ فہد نے بتایا کہ سرمایہ کار ہمیشہ منطقی انداز میں فیصلہ کرتا ہے اور اس میں جذباتی پن کم ہوتا ہے۔ ’وہ اپنی سرمایہ کاری پر منافع چاہتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس شروع ہوئے تو اس وقت فارن کرنسی میں پاکستان میں ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پر بہت پُرکشش منافع مل رہا تھا کیونکہ اس وقت امریکہ یا برطانیہ کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پر منافع کا فرق چھ فیصد تھا۔
’کیونکہ اس وقت وہاں پر شرح منافع 0.25 فیصد تھا جبکہ ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری سے فارن کرنسی میں ریٹرن چھ سے ساڑھے چھ فیصد مل رہا تھا، جو بہت زیادہ پُرکشش تھا۔‘ ان کے مطابق تاہم، اب یہ فرق کم ہو کر دو سے تین فیصد رہ گیا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپی مارکیٹ میں شرح سود کے بڑھنے سے پاکستان کے ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کا نفع اب پہلے جیسا نہیں رہا۔
زاہد منیر نے اس سلسلے میں کہا یہ بات ٹھیک ہے کہ ان روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پُرکشش نہیں رہی۔ انھوں نے کہا ’فرق کم رہ گیا ہے جبکہ پاکستان کا کنٹری رسک بڑھنے سے سرمایہ کار اب پاکستان کی جانب راغب نہیں۔‘
ان کے مطابق برطانیہ میں سرمایہ کاری اور پاکستان میں سرمایہ کاری پر نفع میں فرق بہت کم رہ گیا ہے اور پاکستان کا بطور کنٹری رسک بڑھنا سرمایہ کاری کے لیے خطرہ ہے۔
ان کی بھی یہی رائے ہے کہ سرمایہ کار کے لیے پاکستان کی معیشت پر بھروسہ کرنا آسان نہیں رہا۔
ثنا نے کہا ’ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے ان اکاؤنٹس کا اجرا کیا تھا اور انھوں نے زیادہ تندہی سے ان کے لیے کام کیا جو شاید اب کم نظر آتا ہے۔‘
فہد نے بتایا کہ پاکستان کو روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے ڈالر یا دوسری فارن کرنسی میں سرمایہ کاری پر شرح نفع بڑھانی پڑے گی۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ یا برطانیہ رہائش پذیر لوگوں کے لیے ڈالر یا پاؤنڈ پر محض دو فیصد کا نفع دے کر بڑی سرمایہ کاری نہیں لائی جا سکے گی۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کیسے ہوتی ہے؟
ستمبر 2020 میں میں پہلی بار ان اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کی گئی اور اب تک ان میں 5.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور چار لاکھ پچاسی ہزار آٹھ سو تہتر اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت کے اس پروگرام میں ان اکاونٹس کے ذریعے بیرون ملک پاکسانیوں کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ پاکستان آکر کسی بینک برانچ میں ذاتی طور پر پیش ہو کر اکاؤنٹ کھلوانے کی بجائے آن لائن طریقے سے یہ اکاؤنٹس کھلوا سکیں اور اپنا پیسہ ان اکاونٹس کے ذریعے پاکستان میں لگا سکیں یا گھر والوں کو بجھوا سکیں۔
ان اکاونٹس کے ذریعے سٹاک مارکیٹ، گورنمنٹ سکیورٹیز، نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کے ساتھ کار اور گھر کی خریداری کے لیے فنانسگ بھی ان اکاونٹس کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔