پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں سے ملک، حکومت اور معیشت کچھ بھی نہیں چل رہا اور سنہ 2020 صاف شفاف الیکشنز اور عوامی راج کا سال ہو گا۔
بلاول بھٹو نے یہ بات جمعے کو پنجاب کے شہر راولپنڈی میں عین اسی مقام پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے جہاں آج سے 12 برس قبل پارٹی کی سابق چیئرمین بینظیر بھٹو کو خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
طبعیت کی خرابی کے باعث پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری جلسے میں شرکت نہ کر سکے تاہم بلاول کے خطاب سے قبل ان کے والد کا ویڈیو پیغام سٹیج سے سنایا گیا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان پر سیاسی یتیموں کا راج ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں بینظیر بھٹو متنبہ کرتی تھیں۔
’ہماری خود مختاری کا حال یہ ہے کہ ہمارا وزیرِ اعظم این او سی کے بغیر کسی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کر سکتا، ملک کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف بنا رہا ہے، یہ وہ جمہوریت نہیں جس کے لیے ہم نے قربانیاں دیں، یہ وہ آزادی نہیں جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔‘
بلاول کا کہنا تھا کہ آج پھر دھرتی پکار رہی ہے کہ وہ خطرے میں ہے، پارلیمان پر تالا لگ چکا ہے، میڈیا آزاد نہیں اور عدلیہ پر حملے ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صوبوں سے ان کا حق چھین کر وفاق کو کمزور کیا جا رہا ہے، انتہا پسندی پوری معاشرے میں پھیل چکی ہے، تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ سراپا احتجاج ہیں اور عوام کا معاشی قتل ہو رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’یہ تجربہ فیل ہو چکا ہے، آئینی اور معاشی بحران ہے، سیاسی رہنماؤں اور خواتین کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی یتیم گھبرا چکے ہیں اور ان کا کٹھ پتلی راج لڑکھڑا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پہلے ایک سال میں دس لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور جب ہم حکومت کی توجہ بے روزگاری کی جانب مبذول کرواتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف یہ صورتحال ہے جبکہ دوسری جانب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے آٹھ لاکھ لوگوں کو نکالا گیا ہے جو کہ درحقیقت غریبوں کا معاشی قتل ہے۔
بلاول نے کہا کہ خیبر سے کراچی تک عوام کہہ رہے ہیں کہ ’الوداع الوداع سیاسی یتیم الوداع، الوداع الوداع سلیکٹڈ حکومت الوداع۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کو آزادی دلوائے گی، ووٹ کا تحفظ کرے گی، نوجوانوں اور کسانوں کو ان کا حق دلوایا جائے گا، مزدوروں کو ان کی محنت کا صلہ دیا جائے گا اور بینظیر کے نامکمل مشن کو مکمل کیا جائے گا۔
’جیالوں میرا ساتھ دو۔ ہمارا ملک، جمہوریت اور آزادی خطرے میں ہے یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم نے اسے بچانا ہے اور بے نظیر کے مشن کو مکمل کرنا ہے۔ ‘
اپنی تقریر کے آغاز میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا اور والدہ کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ملک اور قوم کے لیے ان کی خدمات کو دہرایا۔
انھوں نے کہا کہ ان کی والدہ پاکستان میں عوامی راج قائم کرنے کے لیے واپس آئی تھیں مگر 27 دسمبر کو اسی لیاقت باغ میں انھوں نے اپنے آخری جلسے سے خطاب کیا اور دنیا میں پاکستان کی پہچان بننے والی خاتون کو بم دھماکے میں سرِعام شہید کر دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ان کی والدہ کے دن دیہاڑے ہوئے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے نہ صرف اپنے غم اور غصے کو قابو میں رکھا بلکہ انتقام اور انتشار کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے مفاہمت اور برداشت کی سیاست کی اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔
’سنہ 2008 میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو لے کر چلی اور 1973 کا آئین 18ویں ترمیم کے ذریعے بحال کیا۔‘
بلاول کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کو صرف اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ وہ طاقت کا سرچشمہ صرف عوام کو مانتی تھیں اور وہ کسی آمر کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں تھیں۔
لیاقت باغ میں موجود نمائندہ بی بی سی سحر بلوچ کے مطابق اس وقت پنڈال پارٹی کارکنان سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا اور مزید گنجائش کی کمی کے باعث خواتین کے لیے مختص کی گئی جگہ پر بھی مرد کارکنان کی کثیر تعداد موجود تھی۔
لیاقت باغ کے باہر بھی لوگوں کا ہجوم جمع تھا اور لیاقت باغ پہنچنے والوں میں سے زیادہ تر کارکنان کا تعلق راولپنڈی، خیبر پختونخوا اور سندھ کے مختلف شہروں سے تھا۔
جلسہ گاہ کے مناظر
لیاقت باغ میں ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی آمد کا سلسلہ گذشتہ رات سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ نمائندہ بی بی سی سحر بلوچ لیاقت باغ میں موجود ہیں اور انھوں نے چند پارٹی کارکنان سے بات چیت کی ہے۔
سوشل میڈیا پر ردِعمل
27 دسمبر 2007 پاکستان کی سیاسی ہی نہیں بلکہ ملکی تاریخ کا بھی ایک اہم دن ہے۔ اِس دن راولپنڈی میں لیاقت باغ کے جلسے میں بینظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ ہلاک ہوگئی تھیں۔
دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہونے والی بینظیر بھٹو آج ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہی ہیں اور اس کی وجہ ان کی 12 ویں برسی ہے۔
ٹوئٹر پر ان کے چاہنے والوں اور ناقدین کی جانب سے ٹویٹس کا سلسلہ جاری ہے۔
بینظیر بھٹو کی موت پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے سماجی کارکن سلمان صوفی لکھتے ہیں ‘حالانکہ میرا سیاسی جھکاؤ کبھی بھی پی پی پی کی طرف نہیں تھا لیکن ان کی موت میرے سینے میں ایک تکلیف دہ درد چھوڑ گئی ہے جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔’
صحافی حامد میر نے بینظیر بھٹو کے سیاسی اقدام کو سراہتے ہوئے ٹویٹ کیا ‘سرحد کے دونوں اطراف بینظیر بھٹو مرحوم وہ پہلی وزیراعظم تھیں جنھوں نے اپنے ہاتھ میں چھڑی پکڑ کر سیاچن ہائیٹس کا دورہ کیا۔ کئی برسوں بعد سنہ 2005 میں وزیراعظم منموہن سنگھ نے ان کی پیروی کی۔’
اداکارہ وینا ملک نے بینظیر کے طرزِ زندگی کے بارے میں لکھا ‘لیڈرشپ رتبوں، عہدوں یا فلو چارٹس سے نہیں ہوتی، یہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے شخص کو متاثر کر کے ہوتی ہے۔‘
اسلام آباد میں ترکی کے سفیر مصطفیٰ یورداکُل نے لکھا ‘اللہ ان کی روح کو دائمی سکون دے’۔
ٹوئٹر صارف انایا خان نے بینظیر کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ وہ لکھتی ہیں ‘میرا خیال ہے کہ میری نسل کی بہت سی نوجوان عورتیں اس بات کو اتنا اہم نہیں سمجھتیں کہ بینظیر بھٹو نے ہمارے لیے بہت سے رکاوٹیں ہٹا دیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ جب میں بڑی ہو رہی تھی تو میری یرو وہ تھیں۔ بینظیر بھٹو جیسا کوئی دوسرا نہیں آئے گا۔’
صحافی شاہ زیب جیلانی نے بینظیر بھٹو کے بارے میں ٹویٹ کیا ‘وہ عورتوں کے خلاف صنفی تعاصب رکھنے والے سیاسی کلچر کے سامنے تین دہائیوں تک ڈٹ کر کھڑی رہیں اورمفاد پرست جرنیلوں، ملاؤں اور جہادیوں سے مقابلہ کیا۔ انھوں نے غلطیاں کیں لیکن بینظیر بھٹو کی میراث ان کا بے پناہ حوصلہ اور قربانی ہے۔’
جہاں کچھ ٹوئٹر صارفین نے بینظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کیا وہیں کچھ صارفین نے ان کے دورِ حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ عقیل احمد شاکر لکھتے ہیں ‘بینظیر کا کوئی ایک کام بتا دیں جسکی وجہ سے پاکستانیوں کو فائدہ ہوا ہو۔ آپ تاریخ اٹھا لیں آپ کو ایک ایسا کام نہیں ملے گا۔ لیکن آپ اگر یہ دیکھنے جائیں گے کہ بینظیر کے کن کاموں سے پاکستان کو نقصان ہوا تو اسکی فہرست اتنی لمبی کہ 100 گھنٹے کی ڈاکومینٹری بن جائے’۔
لیکن کچھ صارفین بینظیر پر تنقید کرنے والوں کو بھی جواب دیتے نظر آئے۔
اسامہ صدیق نے ٹویٹ کیا ‘یہ بینظیر بھٹو کے کریئر کو چاک کرنے کا دن نہیں ہے۔ 364 دن ان کی ناکامیوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ آج ان کی کاوشوں کو سراہنے کا دن ہے۔ اور ان کی موت کو یاد کرنے کا دن ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم پورا سال آمروں کے بارے میں افسردہ ہوتے ہیں۔ آج ایک جمہوریت پسند اور ایک شہید کے بارے میں افسردہ ہونے کا دن ہے۔’