آج صبح سے میں نہ اخبار پڑھ سکا تھا اور نہ ٹی وی کا کوئی نیوز بلیٹن دیکھ سکا تھا، چنانچہ طبیعت بہت ہشاش بشاش تھی، مگر کچھ دیر پہلے استاد پریشان خیالوی نے گھر پر دستک دی۔ میں باہر آیا تو ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ شدید پریشانی کے عالم میں بولے ’’جلدی سے دروازہ بند کرو، اندر سے کنڈی لگائو ،تالا بھی لگا دو‘‘، پھر اس کے بعد انہوں نے مجھے پیچھے دھکیلا اور اندر داخل ہو کر دروازے کو خود ہی کنڈی لگا دی….میں انہیں ڈرائنگ روم میں لے آیا ان کیلئے چائے کا آرڈر دیا۔ استاد کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا اور وہ لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔ میں ڈر گیا، میں نے پوچھا ’’استاد خیریت تو ہے، اتنے پریشان کیوں نظر آ رہے ہو؟‘‘ بولے ’’بس اللہ نے جان بچا لی ہے، ورنہ کل میرے قل ہوتے‘‘ میں نے عرض کی ’’استاد اب آپ زیادہ سپنس پیدا نہ کریں، یہ بتائیں ہوا کیا؟‘‘ اس پر انہوں نے بتایا کہ جب وہ گھر سے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک لمبی داڑھی اور گردن تک گھنے بالوں والا شخص ان کے آگے موٹر سائیکل پر جا رہا ہے، جب وہ اس کے آگے نکلے تو دیکھا کہ وہ پیچھے آ رہا تھا۔ انہیں ایک سگنل پر رکنا پڑا مگر وہ سرخ بتی کراس کر کے نکل گیا، چنانچہ اب وہ آگے تھا اور استاد پیچھے رہ گئے تھے۔ اس کے بعد بھی اس طرح ہوتا رہا، کبھی وہ آگے ہوتا، کبھی استاد پیچھے رہ جاتے، جس پر استاد گھبرا گئے اور پناہ لینے کے لئے میرے گھر کی کنڈی کھڑکا دی۔ یہ داستان بیان کرتے ہوئے شدید پریشانی کی وجہ سے ان کا سانس مزید پھولنے لگا تھا۔ اس ساری کہانی سے استاد نے نتیجہ یہ نکالا کہ وہ یقیناً کوئی دہشت گرد تھا جو کبھی ان کے آگے آ جاتا اور کبھی پیچھے چلا آتا۔
کہانی کے اس اختتامی نتیجے پر میں کوشش کے باوجود اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ میں نے عرض کی ’’استاد وہ دہشت گرد بھی آپ کو دہشت گرد ہی سمجھ رہا ہو گا کیونکہ آپ خود بھی کبھی اس سے آگے اور کبھی پیچھے رہ جاتے تھے۔ ویسے دہشت گرد آگے آگے بھاگ کر پیچھا نہیں کیا کرتے۔‘‘ ظاہر ہے استاد نے اس بات پر مجھ سے ناراض ہونا ہی تھا، سو وہ ہو گئے۔ دراصل استاد پریشان خیالوی ان لوگوں میں سے ہیں جن کی زندگی میں خوش باشی کے تمام لوازم موجود ہیں، چنانچہ وہ پریشانی کو بہت مس کرتے ہیں اور یوں اس کی تلاش میں رہتے ہیں، ایک بہت بڑے ادیب جن کا سب سے بڑا فین میں خود ہوں اپنی بے پناہ عزت سے اکتا گئے تھے۔ وہ ہر ایک کی توہین نہیں کرتے ان کے دل میں حسرت تھی کہ اس دنیا میں کوئی تو ایسا شخص ہو جو کبھی ان کی بے عزتی کرے اور یوں انہیں عزت کی یکسانیت سے نکالے، چنانچہ ایک دن میں نے ان کے نخوت آمیز رویے سے تنگ آ کر اور اپنے دل پر پتھر رکھ ان کی خاصی ’’بیستی‘‘ کر دی جس کے نتیجے میں وہ مجھ سے آج تک بے حد خوش ہیں اور میں ان کے حلقے میں واحد شخص ہوں جس کی عزت وہ دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں۔ استادپریشان خیالوی بھی آسودگی کی یکسانیت سے اکتائے ہوئے ہیں، چنانچہ جب آتے ہیں، کوئی پریشانی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ انہیں ہر دم یہ پریشانی بھی لاحق رہتی ہے کہ کیا فائدہ اس زندگی کا کہ ایک دن تو مر جانا ہے۔ اس کے جواب میں، میں ایک نہایت بے ہودہ بات کہتا ہوں (قارئین سے معذرت کے ساتھ) کہ استاد تم صبح ناشتہ کرتے ہو، دوپہر کو کھانا کھاتے ہو، رات کو بھی کھانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے، کبھی سوچا کہ اس کھانے کا کیا فائدہ، صبح کو تو یہ سب نکل جاتا ہے۔‘‘
موصوف کی زندگی سے بیزاری کا یہ عالم ہے کہ انہیں بس اپنے والد محترم کی تاریخ پیدائش محض اس لئے یاد ہے کہ اس روز کوئٹہ میں زلزلے کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے، ان کے پردادا اس روز پیدا ہوئے تھے جب مملکت میں طاعون پھیلا تھا۔ اس طرح اپنے چچائوں اور دیگر عزیز و اقارب کی تاریخ پیدائش بھی انہیں ہلاکتوں کے حوالے ہی سے یاد ہے۔ ایک دن میں نے کہا ’’استاد آپ زندگی سے بہت تنگ آئے ہوئے ہیں، کیا خیال ہے آپ کی شہادت کا کوئی معقول انتظام کیا جائے؟‘‘ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور بولے ’’تمہیں یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں نے کسی نہ کسی دن کسی دہشت گرد کے ہاتھوں یا کسی موذی بیماری کے ہاتھوں اور یا کسی حادثے میں مرنا ہی مرنا ہے، مجھے روزانہ اس کے آثار نظر آتے ہیں، اللہ جانے ابھی تک کیسے زندہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد اللہ جانے انہیں کیا سوجھی کے مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے ’’تمہارا خیال ہے میں واقعی مر جائوں گا، یاد رکھو میں لوگوں کو پریشان دیکھ سکتا ہوں، خوش نہیں دیکھ سکتا، تم کان کھول کر سن لو، میں نے کوئی نہیں مرنا ورنا۔‘‘ (قند ِ مکرر)