پولیس کا نظام کس کام کا؟
رواں برس کے اپریل سے اس کالم میں آپ کو اُکتادینے کی حد تک یاد دلاتا رہتا ہوں کہ جب مغل سلطنت اپنے کامل زوال کی جانب بڑھ رہی تھی تو پنجاب کا صوفی شاعر بلھے شاہ بلبلا اٹھا تھا۔”برا حال ہویا پنجاب دا“ کی دہائی مچانا شروع ہوگیا۔ربّ کریم نے مجھے بلھے شاہ جیسے تخلیقی ذہن سے مالا مال نہیں کیا۔ویسے بھی تنخواہ کا محتاج قلم گھسیٹ ہوں۔ ہر لفظ لکھنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود خبردار کرنے سے باز نہیں رہتا کہ ہم ان دنوں بلھے شاہ کی بیان کردہ ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
”سکھاشاہی“ کے دور میں جو خلفشار نمودار ہوا تھا برطانوی سامراج اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے 1846ءمیں یہاں قابض ہونے کے قابل ہوا تھا۔ پنجاب کے باسیوں کی اکثریت کو اس نے حقارت سے ”جرائم پیشہ قبائل“ میں تقسیم ہوا ثابت کرنے کی کوشش کی۔انہیں ”بندے دا پتر“بنانے کے لئے پولیس کا جو نظام بنایا وہ بہت سخت گیر تھا۔ اس کے علاوہ اپنے وفاداروں کو ”مربعے“ وغیرہ الاٹ کرتے ہوئے برطانیہ نے اشرافیہ کی ایک خاص قسم بھی ایجاد کی جو ”سرکار“ کی اطاعت ایمان کا حصہ سمجھتی تھی۔ مذکورہ رویے کو اقبال نے ”خوئے غلامی“ پکارا اور مرتے دم تک اس کے بارے میں کڑھتے رہے۔
سامراجی عزائم کے حصول کا اہم ترین ہتھیار ہونے کے باوجود پنجاب میں برطانیہ کا متعارف کردہ پولیس اور مقامی انتظامیہ کا نظام عام آدمی کو کم از کم یہ گماں فراہم کرتا تھا کہ معاشرے میں امن وامان کا نظام مضبوط ہاتھوں میں ہے۔آزادی کے بعد یہ نظام ہمیں ورثے میں ملا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس کے مثبت پہلوﺅں کو توانا تر بناتے اور اسے جبر کا ہتھیار بنانے کے بجائے عوام دوست بنانے کی کوشش کرتے۔ورثے میں ملے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے لیکن ہم نے اسے مزید بگاڑنا شروع کردیا۔
یہ نظام اب قطعاََ کھوکھلا اور ناکارہ ہوچکا ہے۔اس کی بابت اگر آپ کو یقین نہیں آرہا تو خدارا ٹھنڈے دل سے ذرا سوچیں کہ گزرے جمعرات کے دن سے کیا ہورہا ہے۔ عمران خان صاحب کی شخصیت اور اندازِ سیاست کو آپ پسند کریں یا نہیں۔اس حقیقت کو جھٹلانہیں سکتے کہ وہ اس وقت ہمارے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ اپنی مقبولیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ جلد از جلد عام انتخاب کے خواہاں ہیں۔اس ہدف کے حصول کے لئے 28اکتوبر کے روز لاہور سے ”لانگ مارچ“ کے ذریعے اسلام آباد پر ”یلغار“ کا ماحول بنانا چاہ رہے تھے۔ اسلام آباد تک پہنچنے کے لئے تاہم انہوں نے آٹھ دن تک پھیلا ٹائم ٹیبل اختیار کیا۔
عمران خان صاحب نے جب زیادہ سے زیادہ پانچ گھٹنوں کی مسافت کو آٹھ دنوں تک بڑھادیا تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ میرے وسوسوں بھرے ذہن میں اس کی وجہ سے کئی خیالات آئے۔ان میں سے محض چند کا میں نے اس کالم میں ذکر بھی کردیا۔اقتدار سے فارغ کئے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم تواتر سے اس خدشے کا اظہار بھی کرتے رہے کہ انہیں قتل کرنے کی سازش تیار ہوچکی ہے۔
جو الزام وہ سنجیدگی سے دہراتے رہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے پنجاب پولیس کو ”لانگ مارچ“ کے دوران عمران خان صاحب کی سکیورٹی اپنے ذمہ لینا چاہتے تھی۔ یہ ذمہ داری اس لئے بھی لازمی تھی کیونکہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں ان کی جماعت برسراقتدار ہے۔چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے نمائندہ نہیں۔وہ مگر تحریک انصاف کی حمایت سے وزارت اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہیں۔ پنجاب پولیس کی جانب سے عمران خان صاحب کے تحفظ کو یقینی بنانے والے پلان کے ساتھ وہ عمران خان صاحب کے ساتھ مسلسل رابطے اور ان کی تسلی کے مطابق مجوزہ بندوبست کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتے۔
تحریک انصاف کے کئی رہ نما دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے پاس ”ٹھوس اطلاعات“ تھیں کہ لانگ مارچ جب وزیر آباد کی حدود میں داخل ہوگا تو عمران خان صاحب پر حملے کی کوشش ہوگی۔سوال اٹھتا ہے کہ اگر ”ٹھوس اطلاعات“ واقعتا میسر تھیں تو ممکنہ حملے کے تدارک کے لئے کونسے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے تھے۔ایسے اقدامات کا تردد اگر نہیں ہوا تو ”غفلت“ کی بنیادی ذمہ داری پنجاب حکومت اور وہاں کی پولیس اور انتظامیہ کے سر ہی عائد ہوگی۔
بہرحال عمران خان صاحب وزیر آباد کی حدود میں داخل ہوئے تو ان پر حملہ ہوگیا۔ربّ کے کرم سے ان کی جان محفوظ رہی۔ ان پر گولی چلانے والا بھی کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا۔عمران صاحب کے ایک نوجوان پرستار ہی نے اسے گرفت میں لیا۔ مزید اطمینان بخش یہ حقیقت بھی رہی کہ حملہ آور زندہ سلامت پولیس کی تحویل میں ہے۔حملہ آور کی حراست کے بعد پولیس مشینری کی ساری توجہ یہ طے کرنے پر مرکوز ہونا چاہیے تھی کہ اس کا فعل”انفرادی“ تھا یا اس کے تانے بانے کسی گہری سازش سے جڑے ہوئے ہیں۔
”دہشت گردی“ کے خلاف جنگ کے دنوں میں پنجاب پولیس کو عالمی مدد کی بدولت جاسوسی اور تفتیش کے جدید ترین آلات میسر ہوچکے ہیں۔ ”موبائل ڈیٹا“ اور ”جیوفینسنگ“ ہماری روزمرہّ زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔پنجاب ہی میں عالمی معیار کی حامل ”فرانزک لیب“ بھی موجود ہے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے چند ہی دنوں میں یہ تو ہر صورت معلوم کیا جاسکتا تھا کہ عمران خان صاحب کے قافلے پر فقط ایک ہتھیار سے گولی چلی یا تباہی پھیلانے کے لئے دیگر ہتھیار بھی استعمال ہوئے۔ یہ کالم لکھنے تک اس بنیادی سوال کا واضح جواب بھی نہیں مل پایا ہے۔بنیادی سوال اٹھانے کے بجائے ہم ”صحافی“ اس بحث میں اُلجھ گئے کہ ”ایف آئی آر“ کیسے درج ہو۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے پولیس کی مدعیت والی ایف آئی آر درج بھی ہوگئی۔عمران خان صاحب اس کی بابت مطمئن نہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف بھی تفتیش کی بابت ابھی تک ہوئی پیش رفت کے بارے میں مطمئن نظر نہیں آرہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سے فریاد لکھ دی ہے کہ وہ ازخود تفتیشی عمل کی نگہبانی کرے۔ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری پولیس کی جانب سے ہوئی تفتیش کے حتمی نتائج کا بغور جائزہ لیتے ہوئے انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔”تفتیش“ اس کا فریضہ نہیں۔اگر ”تفتیش“ کی نگہبانی بھی عدلیہ ہی نے کرنا ہے تو پولیس کا نظام کس کام کا؟ خدارا اس سوال کو بھی زیر غور لائیں۔