یہ بات بظاہر بہت حیران کن ہے کہ جن ملکوں میں زندگی کی سب سے بہتر آسائشیں اور سہولتیں ہیں وہاں خود کشی کی شرح بہت زیادہ ہے، ان ملکوں میں بچپن ہی سے سہولتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور پچیس تیس برس کی عمر تک لوگ کم و بیش اپنی خواہشات کی تکمیل کرلیتے ہیں۔ کار، گھر، کلب، پارٹیاں، ڈریسز، فوڈ، شادی، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، اس کے علاوہ باقی سب الم غلم اور اوپر سے ہر کام کی آزادی۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ چیزیں روٹین بن جاتی ہیںاور اکتاہٹ کا عالم طاری ہونے لگتا ہے اور یہ لوگ سوچتے ہیں واٹ نیکسٹ؟ (WHAT NEXT)یعنی اب کیا کیا جائے، اسکے بعد پرورشن (PERVERSION) کی طرف آ جاتے ہیں۔ الٹی سیدھی حرکتیں، خلافِ معمول اور خلافِ فطرت حرکات، ان کے بعد پھر سوال اٹھتا ہے واٹ نیکسٹ؟ اور پے در پے ان سوالوں سے گزرنے کے بعد آخر میں نیا تجربہ موت ہی رہ جاتی ہے، چنانچہ خود کشی کرتے ہیں۔ ممکن ہے خود کشی کے بعدبھی ان کی باڈی سے واٹ نیکسٹ کی آواز آتی ہو۔ ہمارے ہاں بھی طبقہ امرا میں اس طرح کے کیس موجود ہیں جن میں سے کچھ ہولناک واقعات کی بازگشت گزشتہ دنوں اخبارات میں دکھائی دی۔ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں خودکشی کے زیادہ تر کیس غربت، افلاس اور محرومیوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
ان خلاف معمول سرگرمیوں میں جنس کی فراوانی بھی بہت گل کھلاتی ہے جس کی جھلکیاں ان ملکوں میں تیار ہونے والی ایکس ریٹڈ فلموں میں نظر آتی ہیں، نارمل طریقوں سے ہوتے ہوئے ابنارملٹی کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے جس کا کوئی اختتام نہیں۔ لیکن بنیادی طور پر معمول سے ہٹی ہوئی سرگرمی ہے اور اس میں حد سے بڑھی ہوئی انوالومنٹ حیوانیت کی طرف لے جاتی ہے اور وہ کچھ ہوتا ہے جو دیکھتے ہوئے ابکائی محسوس ہوتی ہے۔ ’’واٹ نیکسٹ‘‘ کے زمرے میں نارمل لائف گزارتے گزارتے قتل و غارت گری کا سفر بھی شروع ہو جاتا ہے۔ڈاکہ زنی کے دوران یا لڑائی جھگڑے کے نتیجے میں قتل اس ذیل میں نہیں آتا، بلکہ آپ نے اکثر اس نوع کی خبریں پڑھی ہوں گی کہ یونیورسٹی کا طالب علم اکتائی ہوئی زندگی میں ایکسائٹمنٹ کے لئے فائرنگ کرکے دس بارہ افراد ڈھیر کر دیتا ہے، اس کے علاوہ سیکنڈے نیوین ممالک کی فلاحی مملکتوں میں جہاں زندگی کی آسائشوں کی تمام تر ذمہ دار وہاں کی حکومتیں ہیں، یکسانیت سے اکتائے ہوئے افراد کوئی نیا ’’چن‘‘ چڑھا دیتے ہیں۔ میں نے ان ملکوں میں چند برس گزارے ہیں۔ وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات بھی ہے۔ ناروے میں قیام کے پہلے دن میں رات ہونے کا انتظار کرتا رہا، مگر وہاں صرف شام ہوئی اور وہ بھی اتنی روشن کہ زمین پر گری ہوئی سوئی بھی نظر آ جائے۔ گرمیوں میں رات صرف ایک گھنٹے کی ہوتی ہے۔ ایک بجے سے دو بجے تک، اس کے بعد پھر سورج نکل آتا ہے ۔(ہمارے ہاں تو رات ہی رات ہے صبح کی راہ تو تکتے آنکھیں تھک گئی ہیں ) چنانچہ اس یکسانیت کے سبب ان ممالک میں ’’خودکشی کی شرح دوسرے ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ ہے۔ کینیڈاسکینڈے نیوین ملکوں میں نہیں مگر یہ بھی فلاحی مملکت ہے، میں نیاگرا فال دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے آغاز پر نوجوان خود کو کسی ڈرم میں بند کرکے اسے آبشار میں گرا دیتے تھے اور یوں زندگی کی سہولتوں سے جان چھڑا لیتے تھے اس نوع کی پے درپے وارداتوں کے بعد وہاں پولیس متعین کر دی گئی۔ بہرحال بات یہ ہو رہی تھی سکینڈے نیوین ممالک (قطب شمالی) کی جہاں چھ مہینے کے دن اور چھ مہینے کی رات زندگی سے اکتاہٹ کا سبب بنتی ہے، اس حوالے سے ایک بہت مزے کا شعر کسی نے کہا ہے ؎
جی چاہتا ہے قطب شمالی میں جائیں
تنگ آگئے ہیں روز کے شام و سحر سے ہم
سو صورتحال یہ ہے کہ کوئی سہولتوں سے تنگ ہے اور یہ سہولتیں اتنی فراواں ہیں کہ ’’واٹ نیکسٹ‘‘ جینے نہیں دیتا اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں زندگی گزارنے کے لالے پڑے رہتے ہیں ہمارے ہاں امام ضامن ہو تا ہے وہاں نظام ضامن ہے تاہم ہمارے ہاں بھی ایک اقلیت اس قسم کی صورتحال سے دوچار رہتی ہے جس کا خوبصورت نقشہ قمر جلال آبادی کی اس غزل میں نظر ا ٓتا ہے:
کر لوں گا جمع دولت و زر، اس کے بعد کیا
لے لوں گا شاندار سا گھر، اس کے بعد کیا
مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رند
کر لوں گا مے کدوں کا سفر، اس کے بعد کیا
ہوگا جو شوق حسن سے راز و نیاز کا
کر لوں گا گیسوؤں میں سحر، اس کے بعد کیا
شعر و سخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دنیا میں ہوگا نام، مگر اس کے بعد کیا
موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر، اس کے بعد کیا
ایک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بجھ جائے گا چراغ قمر، اس کے بعد کیا
اٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اس کے بعد کس کو خبر، اس کے بعد کیا