فیچرز

زیادہ پورن دیکھنا آپ کے ازدواجی تعلقات اور جنسی صحت کو کتنا متاثر کر سکتا ہے؟

Share

اپنی ازدواجی زندگی میں راکیش اور مالا (شناخت چھپانے کی غرض سے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں) سیکس اور حمل نہ ٹھہرنے جیسے مسائل کے باعث سیکسولوجسٹ کے پاس جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ابتدائی تحقیق اور ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر نے پایا کہ اس جوڑے کو کوئی طبی یا جسمانی مسئلہ نہیں تھا۔ پھر ڈاکٹر نے دونوں سے الگ الگ بات چیت کی۔ مالا نے گفتگو کے دوران ڈاکٹر کو بتایا کہ ’راکیش روزانہ رات دو بجے تک فحش ویڈیوز دیکھتے ہیں۔‘

چونکہ راکیش کا اپنے سماجی حلقے میں بڑا نام تھا اور اُن کی عزت کی جاتی تھی، اسی لیے مالا نے راکیش کی فحش ویڈیوز دیکھنے کی عادت کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔

ماہر امراض نسواں اور سیکسولوجسٹ جیرانی کامراج نے بی بی سی کو بتایا کہ مالا کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر انھوں نے راکیش کا علاج شروع کیا۔

جیرانی کامراج نے بی بی سی سے بات کی کہ کیا پورن دیکھنے والے ہر شخص کو طبی مدد کی ضرورت ہے اور پورنوگرافی اور ازداواجی زندگی کے درمیان کیا تعلق ہے۔

ان کے ساتھ بات چیت سوال جواب کی شکل میں ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:

کیا پورن دیکھنا صحت کے لیے اچھا ہے؟

کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران فحش ویڈیوز دیکھنے کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

فحش فلمیں دیکھنا بہت سے لوگوں کے لیے ’سٹریس بسٹر‘ کے طور پر کام کرتا ہے یعنی یہ ان میں ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے۔

بعض اوقات یہ جنسی مسائل کے شکار لوگوں میں حوصلہ افزائی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

کسی بھی جوڑے میں ایک فریق کا دوسرے فریق کی رضامندی سے کچھ وقت کے لیے پورن دیکھنا تو ٹھیک ہے لیکن 18 سال سے کم عمر بچوں کے لیے یہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ پورن دیکھنے کا سیکس ایجوکیشن یا جنسی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پورن، پورنوگرافی، فحش

پورنوگرافی دیکھنے کے برے اثرات کیا ہیں؟

مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تنہائی محسوس کرنے والے افراد جو بہت تھوڑے وقت کے لیے پورن دیکھتے ہیں یہ بعض اوقات ان میں تناؤ کو کم کرتا ہے۔

تاہم اگر کوئی فحش مواد دیکھنا جاری رکھے اور ایسا زیادہ وقت کے لیے کرتے تو اس کے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور یہ دیکھنے والا شخص الجھن اور تناؤ جیسے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔

فحش مواد کا بار بار یا ضرورت سے زیادہ دیکھنا بھی آپ کے ازدواجی اور جنسی تعلقات کو خراب کر سکتا ہے۔

جو لوگ بہت زیادہ فحش مواد دیکھتے ہیں وہ اپنی ازدواجی زندگی میں بھی سیکس کے دوران بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں اور حقیقی زندگی میں سیکس کے دوران ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں انھیں ناکامی ہوتی ہے اور اس طرح مایوسی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

پورنوگرافی کی لت کا پتہ کیسے لگایا جائے؟

فحش ویڈیوز دیکھنے والے تین زمروں میں آتے ہیں۔

کچھ لوگ ہفتے میں صرف 17 سے 24 منٹ تک فحش فلمیں دیکھتے ہیں۔ اسے زیادہ خطرناک نہیں سمجھا جاتا۔ 75 فیصد سے زیادہ لوگ اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان لوگوں کو مختصر وقت کے لیے پورن دیکھنے کی وجہ سے خاندانی یا ذہنی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

دوسری قسم ان لوگوں میں آتی ہے جنھیں فحش مواد دیکھنے کی لت ہوتی ہے اور وہ بار بار اسے دیکھتے رہتے ہیں۔ 13 فیصد لوگ اس زمرے میں آتے ہیں۔

14 فیصد لوگ تیسرے زمرے میں آتے ہیں۔ اس زمرے کے لوگ ہر ہفتے 110 منٹ تک پورنوگرافی دیکھتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو پریشانی، غصہ، چڑچڑاپن اور تنہائی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کے مردوں کو جنسی سطح پر بھی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فحش، پورنوگرافی

کیا فحش مواد دیکھنے کے عادی افراد کو طبی مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے؟

بالکل۔ جو لوگ بہت زیادہ فحش مواد دیکھتے ہیں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، ان کو ذہنی صحت کے بہت سے مسائل درپیش ہو جاتے ہیں۔

بہت زیادہ پورن دیکھنا یادداشت، نیند، ادراک اور ارتکاز کو متاثر کرتا ہے، اس لیے ایسے افراد کو علاج کی ضرورت ہے۔

پورنوگرافی نوجوانوں کے دماغ اور جنسی عادات کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟

بی بی سی کی اس تحریر میں بتایا گیا تھا کہ فحش سائٹس کے مواد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عمر کی توثیق کرنے پر کنٹرول بہت کم ہے۔

برطانیہ میں، بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے مہم چلائی ہے کہ برطانیہ کے ریگولیٹر اس کے لیے اقدامات کریں۔ آسٹریلیا اور کینیڈا میں رسائی حاصل کرنے کے لیے بائیومیٹرک شناخت پر بڑی بحث ہو رہی ہے، لیکن یہاں یہ خوف بھی ہے کہ اس سے بالغ صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

بی بی سی برازیل کے ساتھ ایک انٹرویو میں لیمبکے کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی ڈرگ کی نشہ آور خصوصیات کو اس کی زیادہ مقدار، زیادہ رسائی، زیادہ طاقت اور زیادہ جدیدیت کے ساتھ بڑھایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ اور پورٹیبل ڈیجیٹل ڈیوائسز ان تمام ڈومینز کو فروغ دیتی ہیں جس کی وجہ سے آج پورنوگرافی ماضی کے مقابلے کی پورنوگرافی سے زیادہ وافر مقدار میں، زیادہ قابل رسائی، زیادہ طاقتور اور جدید ہے اور اسی لیے وہ زیادہ نشہ آور ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سیکس کا نشہ ایک بڑا مسئلہ ہے، جو معاشرے میں آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے پہلے ہی ان کے کچھ مریض خودکشی کا سوچ چکے ہیں۔ ’یہ طرز زندگی یا معاشرتی اصولوں کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے ان طریقوں کے بارے میں ہے جس کے ذریعے اس نے سیکس سمیت انسانی تعلق کو ایک ایسی دوا میں تبدیل کر دیا ہے جس تک ہر کوئی، بشمول بچے، پہنچ سکتا ہے۔‘

لیمبکے کے مطابق ’جذباتی تسکین کی یہ ضرورت مجبوری کی طرف لے جاتی ہے، مثلاً آن لائن پورنوگرافی۔‘

ان کا خیال ہے کہ بار بار لطف کے احساس کو پیدا کرنے کی کوشش کرنے سے وقت کے ساتھ اس کی شدت کم ہو سکتی ہے۔