Site icon DUNYA PAKISTAN

چینی صدر کے فوج کو ’تیار‘ رہنے کے بیان پر کیا انڈیا کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟

Share

’انڈیا ایک امن پسند ملک ہے جس نے کبھی کسی ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی لیکن اگر انڈیا کے امن و سکون کو خراب کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ باتیں دلی میں ملٹری کمانڈروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی ہیں۔

7 سے 11 نومبر تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں وزیر دفاع نے کہا کہ سرحدوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے اور ملک تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

راج ناتھ سنگھ کے اس بیان کا انڈین میڈیا میں کافی چرچا ہے۔ خاص طور پر اسے چینی صدر شی جن پنگ کے اس بیان سے جوڑا جا رہا ہے، جو انھوں نے 8 نومبر کو سینٹرل ملٹری کمیشن کے جوائنٹ آپریشنز کمانڈ ہیڈ کوارٹر میں دیا تھا۔

چین کے صدر کے طور پر تیسری بار منتخب ہونے کے بعد، شی جن پنگ منگل کو ملک کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے جوائنٹ آپریشنز کمانڈ ہیڈ کوارٹر کی نگرانی کے لیے پہنچے تھے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق فوجی اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے، شی نے کہا کہ چین کی قومی سلامتی کو بڑھتی ہوئی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور ایسے میں ہمیں جنگ لڑنے اور جیتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اس دوران شی جن پنگ نے چینی فوج (پیپلز لبریشن آرمی) سے ’فوجی تربیت اور جنگی تیاریوں میں اضافہ‘ کرنے کا مطالبہ بھی کیا لیکن چین کس کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا ہے اور کیا انڈیا کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟

اور کیا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیان سے چین کو جواب دینے کی کوشش کی ہے یا یہ محض اتفاق ہے؟

’دونوں لیڈروں کے بیانات کو نہ جوڑیں‘

اس سوال کے جواب میں جے این یو میں چائنیز سٹڈیز کی پروفیسر الکا اچاریہ کہتی ہیں کہ ’2020 کے گلوان تشدد کے بعد انڈیا کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے لیکن جب بھی چینی لیڈر یا صدر شی اپنی فوج سے بات کرتے ہیں یا خطاب کرتے ہیں تو اس پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بات ہمیں ذہن میں رکھ کر کہی گئی ہے۔‘

پروفیسر الکا کہتی ہیں کہ ’کسی بھی لیڈر کا اپنی فوج سے بات کرنا یا جوش بڑھانا فطری ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کو اس وقت سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، اس لیے فوج کو تیار رہنے کی ترغیب دینا ایک عام بات ہے۔‘

پروفیسر الکا اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور چین کے صدر کے بیان کو جوڑا جانا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ تیسری بار ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد، شی جن پنگ ہر شعبے کے لوگوں سے مل رہے ہیں، ان سے خطاب کر رہے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا مضبوط امیج اور قیادت پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

’انڈیا کو ہوشیار رہنے کی ضرورت‘

انڈیا چین تنازعہ پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’دی لاسٹ وار‘ کے مصنف پراوین ساہنی کا بھی ماننا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے بیانات کو ایک ساتھ نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

جہاں وہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کو انتخابی چال کا حصہ قرار دیتے ہیں تو وہیں وہ چینی صدر شی جن پنگ کے بیان کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔

پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ جن پنگ کے بیان کو سادہ بیان کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن پنگ نے یہ بیان جوائنٹ آپریشن سینٹر میں دیا، اس موقع پر انھوں نے آرمی کی وردی پہن رکھی تھی اور ان کا زور تھا کہ سنہ 2027 تک پیپلز لبریشن آرمی عالمی معیار کی فوج بننی چاہیے۔‘

’اس کے علاوہ چینی صدر نے اتحاد اور علاقائی جنگ پر بھی زور دیا، اس لیے انڈیا کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ چینی صدر اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ ان کی فوج ہر ضروری پلیٹ فارم سے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ ​​کے لیے تیار ہے۔‘

انڈیا کے علاوہ کئی ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ چین کے تعلقات کشیدہ ہیں، ایسی صورتحال میں کیا ان پر بھی پریشانی کے بادل منڈلا رہے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں ساہنی کا کہنا ہے کہ ’جب بھی چین دوبارہ اتحاد کی بات کرتا ہے، خاص طور پر تبت اور تائیوان اس کا ہدف ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دوسرے ممالک کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘

انڈیا کے علاوہ کن ممالک سے چین کے تعلقات کشیدہ ہیں؟

ایسے کل 17 پڑوسی ممالک ہیں جن کے ساتھ چین کا کوئی نہ کوئی علاقائی تنازعہ ہے۔

انڈیا کے علاوہ ان میں فلپائن، انڈونیشیا، ویتنام، جاپان، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، سنگاپور، نیپال، بھوٹان، میانمار، ملائیشیا، برونائی، لاؤس، منگولیا اور تبت شامل ہیں۔

ان ممالک میں تائیوان بھی شامل ہے (جو خود کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست سمجھتا ہے جبکہ چین کا خیال ہے کہ تائیوان کو چین میں شامل ہونا چاہیے)۔

بحیرہ جنوبی چین میں تقریباً 250 چھوٹے اور بڑے جزیرے ہیں۔ یہ علاقہ بحر ہند اور بحرالکاہل کے درمیان ہے اور چین، تائیوان، ویتنام، ملائیشیا، انڈونیشیا، برونائی اور فلپائن سے گھرا ہوا ہے۔

چین اس علاقے کو اپنا کہتا ہے اور ایک انتہائی پرجوش منصوبے کے تحت یہاں ایک مصنوعی جزیرہ بنا رہا ہے۔ دوسری طرف، عام طور پر دوسرے تمام ممالک اس کے کچھ حصے کو اپنا کہتے ہیں۔

امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان اور روس یوکرین جنگ کے درمیان چین کے امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی تلخی آئی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ دونوں، چین کو بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔

انڈیا اور چین کے تعلقات کیسے ہیں؟

حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ نے گجرات کے شہر موربی میں پل گرنے پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو تعزیتی پیغام بھیجا تھا۔

لیکن کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20ویں نیشنل کانگریس کے دوران جب چینی صدر شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیے پارٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا تو وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ دنیا بھر کے رہنماؤں نے انھیں مبارکباد دی۔

ستمبر میں سمرقند میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں گلوان تنازع کے بعد پہلی بار مودی اور شی جن پنگ آمنے سامنے تھے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ دونوں کے درمیان بات چیت ہو سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اکتوبر میں چین کے صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق معاملے پر بحث کے لیے ایک قرارداد لائی گئی تھی تاہم انڈیا نے اس معاملے پر چین کے خلاف نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان کے دوران بھی انڈیا نے چین کے مؤقف کی مخالفت نہیں کی۔

’انڈیا چین تعلقات مشکل ترین دور میں‘

فروری 2022 میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ چین کی طرف سے سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی کے بعد انڈیا اور چین کے تعلقات مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے پراوین ساہنی کہتے ہیں کہ ’اس وقت تعلقات بہتر ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کیونکہ انڈیا بارہا یہ واضح کر چکا ہے کہ جب تک چین سرحد کو معمول پر نہیں لاتا، تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔

دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ سرحدی تنازعات اب معمول بن چکے ہیں اور یہ صرف ایک مسئلہ ہے، ہمیں دیگر مسائل پر بات کرنی چاہیے۔

پروفیسر الکا اچاریہ کا ماننا ہے کہ انڈیا اور چین کے تعلقات ابھی بھی کشیدہ ہیں۔

’پہلے ڈوکلام تنازعہ اور پھر وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ کے بعد سے انڈیا اور چین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔‘

Exit mobile version