Site icon DUNYA PAKISTAN

میں اور اندیشہ ہائے سود و زیاں

Share

’پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام روزِ اول سے ہمارا مقصد اولیٰ رہا ہے‘۔ 50 برس قبل یہ جملہ ہمیں سرکاری اسکولوں میں رٹایا جاتا تھا۔ تعلیم کے نام پر تلقین سے سرشار درویش کے ہم عمر اب اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ اس آموختے کی علمی اصابت اور تاریخی حقیقت سے قطع نظر، سوچنا چاہئے کہ اس ’نظریاتی تعلیم‘ سے لیس اذہان کی فیصلہ سازی کا درجہ کیا ہو گا؟ 9 نومبر 2022 کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ حکومت آئندہ چند روز میں سود کے ضمن میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی طرف سے دائر اپیلیں واپس لے لے گی۔ خیر گزری کہ وزیر خزانہ نے اپنے اعلان کو کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری سے مشروط کیا۔ ’چند روز‘ کا وعدہ خوش آئند ہے کہ یہ قوم ’نوے روز‘کے وعدے کا مآل جانتی ہے۔ ایک دلچسپ حکایت سنئے۔ پی این اے کی احتجاجی تحریک کے عروج پر 11 مئی 1977 کو قومی اسمبلی نے جمعے کو ہفتہ وار تعطیل قرار دے دیا۔ لاہور کے ایک سرکاری مولانا صاحب نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ مولانا کا بیان اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہوا۔ دو عشروں بعد فروری 1997 میں نواز شریف نے اتوار کی چھٹی بحال کر دی۔ 1977 والے سرکاری مولانا صاحب بقید حیات تھے۔ حسبِ معمول انہوں نے خیر مقدمی بیان جاری کیا جو اخبارات کے صفحہ اول پر نمودار ہوا۔ مولانا موصوف اب اس دنیا میں ہیں جہاں ہفتہ وار چھٹی کا کوئی تصور نہیں تاہم اسحاق ڈار صاحب کے بیان پر مولانا فضل الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی اور مکرمی طاہر اشرفی کے خیر مقدمی بیانات قوم کی سماعت کا امتحان لے چکے ہیں۔

دستور پاکستان کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا۔ 12مارچ 1949 کو دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد پاس کی۔ اسی روز دستور کے بنیادی اصول طے کرنے کے لئے 24 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 28 ستمبر 1950 کو اس کمیٹی نے سترہ سفارشات پر مبنی رپورٹ آئین ساز اسمبلی میں پیش کی۔ رپورٹ کے دستوری خدوخال پر مشرقی پاکستان کے نمائندوں کو شدید تحفظات تھے۔ معاملے کو غبار آلود کرنے کے لئے علمائے کرام کو سرکاری تھپکی دی گئی۔ 24 جنوری 1951 کو کراچی میں 31 علما نے 22 دستوری سفارشات کا ایک مسودہ تیار کیا۔ بنیادی اصولوں کی کمیٹی اور علما کی سفارشات کا موازنہ کرنے سے ریاستی معاملات پر اہلِ سیاست اور صاحبانِ منبر و محراب کے تصور عالم میں فرق صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ علما کے یہ 22 نکات ہی 1953 کے ان فسادات پر منتج ہوئے جب پاکستان میں مارشل لا کا پہلا مقامی تجربہ کیا گیا۔ مارچ 1953 میں وزیر اعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ اور اپریل 1953میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ ایک برس بعد دستور ساز اسمبلی اپنے تیار کردہ مسودہ آئین سمیت دریا برد ہو گئی۔ ایوب آمریت بھی عائلی قوانین، رویت ہلال کمیٹی اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن جیسے معاملات سے جھوجھتی رہی۔ یحییٰ آمریت میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلام پسندوں کو میدان میں اتارا گیا۔ شوکت اسلام کا جلوس نکالا گیا۔ عمران خان کی طر ح بھٹو صاحب بھی اہل پاکستان سے ووٹ طلب کرتے تھے مگر مسلم امہ کی قیادت کے لئے مچلتے تھے۔ بھٹو صاحب کی دلاور شہادت اپنی جگہ، مگر وہ قومی ارتقا کو کئی زنجیریں پہنا گئے۔ نوابزادہ شیر علی خان اور بھٹو صاحب کی کاشتہ فصل پر آنے والا برگ و بار جنرل ضیاالحق کے حصے میں آیا۔

10 فروری 1979کو جنرل صاحب نے ایک اجتماع میں زکوٰۃ اور عشر کے نظام ، شرعی قوانین اور بلاسود بینکاری جیسے اعلانات کئے۔ انجام یہ کہ اگلے ہی روز سینکڑوں وکلا نے عدالتوں میں برطانوی قوانین کو مسترد کرتے ہوئے استدعا کی کہ اسلامی نظام قانون کے تحت ان کے موکلین کے لئے قید یا پھانسی کی سزائیں منسوخ کی جائیں۔ ایسا قانونی اودھم مچا کہ صدر صاحب کو ایک ترمیمی اعلان جاری کرنا پڑا۔ اہل تشیع ہم وطن زکوٰۃ اور عشر کے قوانین پر احتجاج کرتے ہوئے مفتی جعفر حسین کی قیادت میں اسلام آباد پہنچ گئے۔ ضیاالحق کو یہاں بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ بلاسود بینکاری کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ رجم اور ہاتھ کاٹنے کی سزائوں پر بھی جنر ل ضیا نے ہتھیار ڈال دیئے۔ صفیہ بی بی کیس پر بین الاقوامی احتجاج ہوا تو حدود آرڈیننس پر بھی نظرثانی کرنا پڑی۔ مرحوم ضیا شاہد سے روایت ہے کہ ایک نجی مجلس میں جنرل ضیاالحق اور ان کے فوجی رفقا جماعت اسلامی کے اس دعوے پرٹھٹھا اڑاتے تھے کہ پروفیسر خورشید احمد نے متبادل معاشی نظام کا خاکہ تیار کر رکھا ہے۔ دین کے ارفع اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبولیت پسند مذہبی نعروں کا استعمال بہرصورت جاری رہا، اپریل 1984 کا آرڈیننس، نویں آئینی ترمیم اور اہانت مذہب کے قوانین۔ ظفر انصاری کمیٹی کی رپورٹ ضیا صاحب کو بے حد عزیز تھی۔ جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد بھی اسلامی نظام کا غلغلہ اٹھا۔ نواز شریف نے اپنی سیاست جنرل ضیا کے مشن کی بیساکھیوں پر کھڑی کی تھی چنانچہ بلاسود بینکاری کا شور 1990 میں پھر اٹھا۔ وفاقی شرعی عدالت نے 1992 میں معیشت کو سود سے پاک کرنے کا فرمان جاری کیا تو ریاست کو مجبوراً عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑا۔ تیس برس قبل دائر کی گئی یہی اپیلیں اسحاق ڈار صاحب واپس لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خاطر جمع رکھئے۔ معاشی گرداب میں گرفتار پاکستان معیشت کے عالمی نظام سے کٹا ہوا جزیرہ نہیں بن سکتا۔ سود کو منافع کہنے کی شعبدہ بازی البتہ ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ سود لینا ہی حرام ہے یا سود ادا کرنا بھی اسی اصول کے تابع ہے؟ ریاست پاکستان نے جون 2022 تک 130 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لے رکھے ہیں۔ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کی ریاستی ضمانت دی جا چکی ہے۔ کیا ہم آئندہ ہفتوں میں آئی ایم ایف، پیرس کلب، چین اور سعودی عرب وغیرہ کو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ دکھایا کریں گے یا گہرے ہوتے سیاسی اور معاشی بحران میں اسحاق ڈار صاحب مرغان دست آموز کے تہنیتی بیانات ہی سے جی پرچائیں گے۔

Exit mobile version