کالم

نوبل پیس پرائز2022پر چڑھا سیاسی رنگ

Share

ایوارڈ ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر ہر کسی کودلی خوشی ہوتی ہے چاہے وہ ایوارڈ پانے والا ہو یا دینے والا ہو۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جب کوئی اپنے فن یا قابلیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے اس کی خاصیت اور قابلیت کے لئے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔

بچپن میں ہم نے ایسی کئی کہانیاں پڑھی تھی کہ فلاں بادشاہ یا رانی نے کسی عام انسان کو اس کی بہادری کے لئے انعام سے نوازا۔ مختلف ممالک میں طرح طرح کے انعامات اور ایوارڈوں کو دئیے جانے کا رواج آج بھی قائم ہے۔ یونان میں اولمپک جیتنے والوں کو پتّوں سے سجے ہوئے تاج کو سر پر پہنا نے کا رواج اب بھی قائم ہے۔ کچھ ملکوں میں پتھروں پر لکھی ہوئی تحریر کو ایوارڈ کے طور پر دیا جاتا ہے۔بیشتر ممالک میں جنگی سپاہیوں کو بہادری کے لئے ان کے کاندھے پر کانسے کے تمغے لگائے جاتے ہیں۔

اس طرح زمانہ قدیم سے ایوارڈوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب بھی دنیا بھر میں کافی مقبول اور عام ہے۔ اب توہندوستان میں ایوارڈ گلی اور محلّے کے لوگوں کو بھی دیا جانے لگا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ ایوارڈ کی مقبولیت ہے یا ایوارڈ کا گرتا ہوا معیار ہے۔پہلے سال بہ سال چند خاص ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا نام سنا جاتا تھا۔ لیکن اب تو ہر روز کسی نہ کسی کو ایوارڈ دئے جانے کی خبر سنی جاتی ہے۔اب ایک ایوارڈ حال ہی میں دلی میں ایک غیر ملکی خاتون کو دیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس غیر ملکی خاتون کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کافی عجلت میں کیا گیا تھا۔سوشل میڈیا پر لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دلی کے ایک معروف اخبار سے تعلق رکھنے والے صاحب نے اپنی ذاتی تعلقات کے بنا پر انہیں ایوارڈ دلوایا ہے۔تھوڑی دیر کے لئے اگر ہم ہندوستان کی مثال لیں تو ہر روز کسی نہ کسی کو ایوارڈ دیئے جانے کی خبر ملتی رہتی ہے۔ مجھے اس سے حیرانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہندوستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لحاظ سے ایوارڈ ہر روز بانٹنا ضروری ہو چکا ہے۔تاہم منتظمین کوشاید یہ آسانی ضرور ہوگئی ہے کہ انہیں ایوارڈ پانے والوں کی صلاحیت اور قابلیت کا جائزہ بڑے پیمانے پر نہیں لینا پڑ رہا ہے اور ایوارڈ آسانی سے بانٹ دیئے جا رہے ہیں۔

ان تمام باتوں کے علاوہ اب بھی دنیا میں کچھ تنظیمیں ایوارڈ دینے کے کام کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں اور وہ ایوارڈکا معیار بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔تبھی اُن ایوارڈوں کو پانے والوں کے نام کو سن کر کوئی حیرانی نہیں ہوتی ہے اور دل خوش ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ ایوارڈ دینے والے ادارے اس شخص کے کارنامے اور اس کی کامیابی کے بارے میں ایک جامع رپورٹ یا تفصیل شائع کرتے ہیں جس سے ایوارڈ پانے والوں کے تئیں خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی ایوارڈ کے متعلق ایک عمدہ اور اعلیٰ رپورٹ شائع کرتی ہے جس سے ایوارڈ اور اس کے پانے والوں کے بارے میں تشفی بخش اطلاعات موصول ہوتے ہیں۔ایوارڈ پانے والے شخص کے ملک، خاندان، ادارہ اور سماج میں بھی خوب جشن منایا جاتا ہے۔

جمعہ 7/ اکتوبر کی صبح دس بجے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا جوں ہی بی بی سی نیوز لگایا تو دیکھا کہ بی بی سی اوسلو سے براہ راست نوبل پیس پرائز کا اعلان ہورہا تھا۔ ایک نوبل کمیٹی کی خاتون انگریزی میں روس اور یوکرین بولی چلی جارہی تھیں۔پہلے تو مجھے محسوس ہوا کہ روس اور یوکرین کی جنگ نے اس سال بوبل پرائز کی منسوخی کر دی یا اس پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ تاہم ہوا بھی ایسا ہی، یعنی 2022کے نوبل پیس پرائز کافی سوچ وچار کے بعد دونوں ممالک کے ایسے فرد کو دیا گیا جس یہ بات صاف عیاں ہوگئی کہ مغربی طاقتیں دنیا کی ہر چیز پر غالب ہیں۔ چاہے وہ جنگ ہو، معاشی معاملات ہوں، جمہوریت کا معاملہ ہو، یا جھوٹ کو سچ یا سچ کو جھوٹ بنانا ہو، انسانی حقوق کی حمایت ہو یا دنیا کی کوئی بھی بات ہو مغربی طاقتیں براہ راست یا بالواسطہ اپنی مداخلت کرنا بنیادی حق مانتی ہیں۔

اس سال کے نوبل امن انعام کے فاتحین میں سے ایک بیلا روسی انسانی حقوق کے وکیل ایلس بیالیٹسکی ہیں۔ جنہیں اس وقت پری تڑائل حراست میں رکھا گیا ہے۔ نوبل امن انعام کمیٹی نے کہا کہ” بیا لیٹسکی نے اپنی زندگی اپنے آبائی ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے اور پر امن ترقی کے لیے وقف کر دی ہے”۔اس کے علاوہ یوکرین سینٹر فار سول لبرٹیز (CGS) اس سال کے نوبل امن انعام کے مشترکہ فاتحین میں سے ایک ہے۔فروری 2022میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد، سینٹر فار سول لبرٹیز نے یوکرین کی شہری آبادی کے خلاف روسی جنگی جرائم کی شناخت اور دستاویز کو جمع کرنے میں مصروف ہے۔روس کے میموریل کو بھی مشترکہ فاتح قرار دیا ہے جسے اس سال کے شروع میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس ادرے نے سویت دور میں لاکھوں بے پناہ لوگوں کی یاد کو بھال کرنے کے لیے کام کیا۔

کئی ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس سال ہندوستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے سر گرم کارکن اور مصنف ہرش مینڈر کا نوبل پیس پرائز انتخاب ہندوستان میں بڑھتے ہوئے مذہبی پولرائزیشن پر ایک سخت روشنی ڈالے گا۔ مینڈر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ جن کے بارے میں مینڈر کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک میں مذہبی اختالافات کو گہرا کر دیا ہے اور جو کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔اس کے علاوہ حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ (AltNews)الٹ نیوز کے شریک بانی پراتیک سنہا اور محمد زبیر کا نام بھی نوبل امن انعام جیتنے کے لیے پسندیدہ افراد میں شامل تھے۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ نوبل فاتح کون منتخب کرتا ہے۔ مختلف ادارے ہر سال ہر زمرے میں انعام دیتے ہیں۔ چھ میں سے پانچ کا انتخاب سوئیڈن میں ہوتا ہے۔ لیکن نوبل امن انعام کے فاتح کا انتخاب ناروے کی نوبل کمیٹی کرتی ہے۔یہ کمیٹی پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ جنہیں ناروے کی پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے۔ ماہرین، تعلیم، یونیورسٹی کے پروفیسرز، سائنس دان، سابقہ فاتحین اور قومی حکومتوں کے ارکان، یہ سبھی ان لوگوں کے نام جمع کرانے کے اہل ہیں جنہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ امن کا نوبل انعام جیتنے کا حق دار ہے۔اس سال 343امیدوار تھیں۔ جن میں سے 251افراد اور 92تنظیمیں تھیں۔لیکن ہمیشہ کی طرح، ناموں کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہ شارٹ لسٹ میں کون ہے۔نوبل ایوارڈ عالمی سطح پر اہم وقار کھتا ہے اور جیتنے والے کو 10ملین سویڈش کرونا یا(£803,000) برٹش پونڈ انعامی رقم دی جاتی ہے۔

1895 میں نوبل پرائز کی شروعات معروف سوئیڈش سائنسداں (Alfred Nobel)الفریڈ نوبل نے کیا تھا۔نوبل پرائز کیمسٹری، ادب، امن، فزیکس اور فیجیولوجی(میڈیسن) کے ماہرین کو دیا جاتا ہے۔ تاہم 1968میں معاشیات کے لئے نوبل پرائز کی بھی شروعات کی گئی۔ایوارڈ کا فیصلہ سوئیڈش اکاڈمی کے ماہرین ممبران کرتے ہیں۔ ہر سال دس دسمبر کو سوئیڈن میں ایک خاص تقریب ہوتی ہے جس میں ایوارڈ یافتہ اپنا لکچر پڑھتے ہیں اور اپنا ایوارڈ وصول کرتے ہیں۔

آئیے چند ہندوستانی نوبل پرائز ایوارڈ پانے والوں کا نام بتاتے ہیں جو قابلِ تعریف ہیں۔1913میں رابندر ناتھ ٹیگور کو ادب کے لئے نوبل پرائز دیا گیا تھا۔1930میں سی وی رمن کو فیزکس کے لئے نوبل پرائز دیا گیا تھا۔1979میں مدر ٹریسا کو امن کے لئے نوبل پرائز دیا گیا تھا۔1998میں امرتیا سین کو اقتصادی سائنس کے لئے نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ 2014میں کیلاش ستیارتھی کو امن کے لئے نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ان ناموں کو سننے کے بعد ہم بنا حیرانی کے اتفاق کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیوں نوبل پرائز ملیں تھے۔

2022 کے پیس نوبل پرائز کے اعلان سے دنیا بھر کے لوگوں میں اس بات سے خوشی ہے کہ اس بار ایوارڈ روس، بیلا روس اور یوکرین کے افراد اور اداروں کو دیا گیا۔جس کی ایک اہم وجہ روس اور یوکرین کی جنگ اور مغربی ممالک کی روس کی جارحانہ رویہ پر تشویش ہے۔تو وہیں مجھے نوبل کمیٹی کی نیت پر بھی شک گزر رہا ہے کہ کیوں اس بار نوبل پیس انعام روس، بیلا روس اور یوکرین کے ہی افراد اور اداروں کو دیا گیا ہے جو روسی صدر پوٹین کے مخالف ہیں۔اس کے علاوہ نوبل پیس پرائز کا اعلان عین روس کے صدر پوٹین کی سالگرہ پر کیا گیا،جو صاف ظاہر کرتا ہے کہ نوبل کمیٹی سیاسی اور مغربی ممالک کی پالیسی اور دباؤ کے تحت کام کرتی ہے۔

میں ایوراڈ حاصل کرنے والوں کی کافی قدر کرتا ہوں۔ کیونکہ اس سے اس شخص کو لیاقت اور قابلیت کا صلہ ملتا ہے اور اسے ایک اعزاز اور رتبہ بھی ملتا ہے۔ لیکن وہیں میں اس بات سے بھی فکر مند ہوں کہ چند مفاد پرست اور سرمایہ داروں نے ایوارڈ کا معیار گرانے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ہے۔جس کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کے ذہن میں ایک سوال ابھر اہے کہ آخر صدیوں پرانی روایت کو کیوں نام نہاد مفاد پرست اور سرمایہ دار بدنام کر رہے ہیں۔لیکن مجھے امید ہے کہ ہر ذی شعور انسان ایسے نام نہاد اور مفاد پرستوں کو اپنی ایمانداری اور دیانتداری سے ایسا منھ توڑ جواب دیں گے تا کہ تعلیم یافتہ اور قابلِ قدر لوگوں جو ایوارڈ پانے کے مستحق ہیں ان کے وقار کو مزید دھچکا نہ پہنچے اور ایوارڈ کا باوقار سلسلہ جاری و ساری رہے۔