ریگ پائی نے تقریباً 80 سال تک ہیگوئیٹ کی تصویر اپنے بٹوے میں رکھی۔
یہ تصویر خود ہیگوئیٹ نے ہی ریگ کی وین میں چھوڑی تھی۔ یہ ان کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ تھا کیوں کہ ریگ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس میں پیش قدمی کرتے ہوئے ہیگوئیٹ کو اپنا جیم سینڈوچ کھانے کو دیا تھا۔
جنگ کی تباہیوں کے دوران نارمنڈی کے ساحل پر ہونے والی یہ اتفاقیہ ملاقات چند لمحوں پر ہی محیط تھی لیکن اس کی یاد زندگی بھر ریگ کے ذہن میں باقی رہی۔
99 سالہ ریگ پوری زندگی ہیگوئیٹ سے ملاقات کے خواہش مند رہے اور 78 سال بعد ان دونوں کی جذبات سے بھری ملاقات ہو ہی گئی۔
شمالی فرانس میں ہیگوئیٹ سے ملتے ہوئے ریگ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’یہ رہا ایک جیم سینڈوچ۔‘
92 سالہ ہیگوئیٹ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’اتنے عرصے بعد تمھیں دیکھ کر اچھا لگا۔ ہم بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔‘
ریگ کے پاس اب موقع تھا کہ وہ اپنا تعارف کروا سکتے۔ 1944 کی چند سیکنڈز کی اتفاقیہ ملاقات کے وقت ان کی عمر 20 سال تھی جبکہ ہیگوئیٹ صرف 14 سال کی تھیں۔
ریگ ایک برطانوی فوجی تھے جو اپنی کمپنی کے ہمراہ نارمنڈی کے ساحل پر اترے تھے تاکہ جرمنی کے خلاف یورپ میں اتحادی حملے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس وقت وہ ایک وقفہ لے رے تھے۔
فوجی ٹرک ڈرائیور ریگ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک وین ہمارے قریب آ کر رکی اور جورڈی نامی شخص نے ہمیں مچھلی کے کین دیے۔‘
وہ ایک گمنام سا گاؤں تھا جہاں ان کی ایک انجان فرانسیسی لڑکی سے ملاقات ہوئی۔
ریگ نے بتایا کہ ’ہمیں ڈبل روٹی بھی ملی۔ پینٹ کے برش سے اس پر جیم لگایا گیا۔ میں اپنی وین کی جانب واپس آ رہا تھا جب میں نے اپنے سامنے ایک لڑکی کو کھڑے ہوئے دیکھا۔‘
’اس نے بوسیدہ سا سفید لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ مجھے گھور رہی تھی اور میں نے سوچا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے۔ میں نے نیچے دیکھا اور مجھے سمجھ آئی کہ وہ ڈبل روٹی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ تو میں نے یہ اس کو دے دی۔ اس کو مچھلی کا کین نہیں چاہیے تھا۔‘
ان کو یاد نہیں کہ ہیگوئیٹ نے ان سے کب ڈبل روٹی لی لیکن ان کو یہ یاد ہے کہ وہ گاؤں کی جانب واپس دوڑی اور ایک چرچ میں گھس گئی۔ ’میں نے اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔‘
اگلی صبح ان کی وین میں اسی لڑکی کی تصویر موجود تھی۔ ’میں نے اس تصویر کو اس وقت سے اپنے بٹوے میں رکھا ہوا ہے۔‘
یہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر ریگ کے دل سے قریب رہی۔ ان کو یہ امید بھی تھی کہ ایک دن وہ اسے ڈھونڈھ لیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا کے بدترین دنوں میں یہ انسانیت کا ایک ایسا چھوٹا سا واقعہ تھا جس نے میری زندگی پر بہت اثر چھوڑا۔‘
ریگ کی اہلیہ کا 2015 میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس سے قبل انھوں نے اپنے بیٹے کی مدد سے ہیگوئیٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کو کامیابی نہیں ملی۔
اس بار ان کو سابق فوجیوں کی ایک تنظیم سے مدد ملی اور ان کو یہ موقع ملا کہ وہ ایک بار پھر تین بچوں کی ماں بن جانے والی ہیگوئیٹ کو اپنا جیم سینڈوچ دے سکیں۔
ہیگوئیٹ کو اس کی تصویر تھماتے ہوئے ریگ نے کہا ’میں نے 78 سال تک اسے سنبھال کر رکھا۔‘
ریگ مچھلی کا کین بھی لائے تھے لیکن 1944 کی طرح ہیگوئیٹ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اسے لینے سے انکار کر دیا۔
اپنے خاندان میں گھرے ہوئے دونوں نے دوستوں کی مدد سے گفتگو کی جس کے دوران ہیگوئیٹ نے کہا کہ ان کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ ریگ نے ان کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
’وہ اب تک زندہ ہے۔‘ ریگ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’کیوں کہ میرے خیال میں یہ تھا کہ شاید وہ مر چکی ہو گی کیوں کہ انھوں نے نوجوانی میں اتنا مشکل وقت دیکھا تھا۔‘
ملاقات ختم ہوئی تو دونوں بغل گیر ہوئے اور ایک دوسرے کے گالوں پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد ہیگوئیٹ نے قہقہ لگایا اور کہا کہ اب تو ان کو شادی کرنی پڑے گی۔
ریگ نے ان کی بات سے اتفاق کیا اور ہیگوئیٹ نے کہا کہ وہ ’اپنے موجودہ بوائے فریڈ کو چھوڑ دیں گی۔‘
ریگ بتاتے ہیں کہ ’مترجم کے ذریعے انھوں نے کہا کہ وہ تم سے شادی کرے گی۔‘
’تو بس یہ ہوا۔‘