کھیل

قطر: کیا یہ اب تک کا سب سے زیادہ سیاست زدہ فٹبال ورلڈ کپ ہے؟

Share

قطر میں ہونے والا فٹ بال ورلڈکپ ایک مرتبہ پھر شاہ سرخیوں میں ہے جس سے فیفا اور اس کے منتظمین بچنے کی امید کر رہے تھے۔

اس ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ سے صرف دو ہفتے قبل اس وقت ایک اور تنازع کھڑا ہو گیا جب ٹورنامنٹ کے ایک آفیشل ایمبیسیڈر نے ہم جنس پرستی کو ’دماغ میں خلل‘ قرار دیا ہے۔

قطر کے سابق بین الاقوامی کھلاڑی خالد سلمان کے جرمن نشریاتی ادارے ڈیڈ ڈی ایف کو دیے گئے ایک بیان نے ورلڈ کپ سے متعلق مسائل کی بڑھتی ہوئی فہرست میں اضافہ کر دیا ہے جس میں کارکنوں کے حقوق، آزادی اظہار رائے اور یوکرین جنگ شامل ہیں۔

بڑھتے ہوئے تنازعات کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اسے تاریخ کا سب سے زیادہ سیاست زدہ ورلڈ کپ قرار دیا ہے۔

’ہم جنس پرستوں کے حقوق‘

لیورپول فٹ بال کلب کے ہم جنس پرست گروہ اور گروپ کوپ آؤٹ کے بانی پال امان کہتے ہیں کہ ’مجھے ابتدائی طور پر یہ امید تھی کہ وہ مہاجر کارکنوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہم جنس پرست افراد کی بہتری کے لیے بھی کوئی اقدامات کریں گے۔‘

انھیں 2019 میں اپنے شوہر کے ساتھ ورلڈ کپ آرگنائزنگ کمیٹی کی میزبانی کے دورے کے حصے کے طور پر قطر کی دعوت دی گئی تھی۔

ہم جنسی اور ہم جنس تعلقات کو فروغ دینا قطر میں غیر قانونی ہے جس کی سزا جرمانے سے لے کر سزائے موت تک ہے۔

لیکن ورلڈ کپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ میچ دیکھنے کے لیے قطر کے دورے پر ’سب کو خوش آمدید‘ اور دعویٰ کیا کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

لیکن خالد سلمان کے انٹرویو جیسے واقعات نے مقابلے کے بارے میں پال کی ابتدائی امید کو کچل دیا ہے۔

football

وہ کہتے ہیں کہ ’افسوس کی بات ہے کہ جب سے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے، قطر نے ہم جنس پرست افراد کے ساتھ امتیازی سلوک دگنا کر دیا ہے۔‘

ہم جنس پرستوں کے جیل جانے اور ان کے جنسی رحجان کو تبدیل کرنے کی تھراپی کے استعمال کی اطلاعات کا مطلب یہ ہے کہ پال اب ورلڈ کپ میں جانے کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب فٹبال ورلڈکپ میں شرکت کرنے کے بارے میں سوچنا غیر معقول ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ قطری حکام ہم جنس پرست افراد کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

کھلاڑیوں کا احتجاج

بین الاقوامی سیاست دانوں کی تنقید کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے گروپوں کے احتجاج بھی میدان میں سامنے آئے ہیں۔

ڈنمارک اس ٹورنامنٹ میں ایک ’ٹونڈ ڈاؤن‘ کٹ  یعنی کم رنگ والی کٹ پہنے گا جس پر ملک کا نام اور برانڈ لوگوز بمشکل نظر آئیں گے۔ ڈنمارک کی ٹیم کے کپتان سمیت دیگر نو ممالک کی ٹیم کے کپتان جن میں انگلینڈ، جرمنی، فرانس اور بلجیئم شامل ہیں اپنے بازوؤں پر ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے ون لو آرم بینڈ پہنیں گے جس پر قوس قزاح کے رنگوں کا لوگو بنا ہوا ہے۔

ٹیموں کی درخواست کے باوجود، فیفا نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا ان کا استعمال ورلڈ کپ کے قواعد کی خلاف ورزی ہو گی۔ ٹورنامنٹ کے دوران کھلاڑیوں کو سیاسی بیانات دینے کی ممانعت ہوتی ہے۔

ایک ماہر تعلیم اور بین الاقوامی کھیلوں کے وکیل، ڈاکٹر گریگوری لونیڈس کا خیال ہے کہ فٹ بال کی گورننگ باڈی کو ایک مشکل چیز کا سامنا ہے کہ وہ یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سب میں لکیر کہاں کھینچنی ہے۔

’ناروے کے کھلاڑیوں نے حال ہی میں اپنی شرٹس پر ایک تحریر لکھی تھی اور پوچھا تھا کہ: ’کیا یہ ایک سیاسی بیان ہے؟‘

football

’مجھے نہیں معلوم، کیا آپ میرے لیے اس کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ سیاسی بیان کیا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایسا کر سکتا ہے، اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کا فیفا اس وقت سامنا کر رہی ہے۔‘

پال امان کا خیال ہے کہ ہم جنس پرستوں کے حقوق ایک ’بنیادی سماجی مسائل ہیں، یہ سیاست کے بارے میں نہیں ہے‘ اور کھلاڑیوں کو ان کے بارے میں بولنے پر سزا نہیں دی جانی چاہیے۔

لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ٹورنامنٹ شروع ہو اور حامیوں (اور کھلاڑیوں) کو معلوم ہو کہ قوانین کو کیسے نافذ کیا گیا ہے۔

مزدوروں کے حقوق

قطر میں مزدور کارکنوں کے لیے مدد ایک اور مسئلہ ہے جس کے بارے میں کچھ مہم چلانے والے صرف کھلاڑیوں کی طرف سے اس پر بات کرنے میں بہت خوش ہوں گے۔

قطر میں مزدورں کے حقوق اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کنسلٹینسی فرم ایکودم کے بانی مصطفیٰ قادری کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں فیفا کا یہ کہنا بہت غلط ہے کہ: اوہ یہ سیاسی ہے، آپ پر کسی قسم کی پابندی ہو گی۔‘

انھوں نے قطر میں مزدوروں سے بات کی ہے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے ورلڈ کپ کے لیے سٹیڈیم بنانے کے کام میں مدد کی ہے، اور پتہ چلا ہے کہ ان مزدورں سے ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے فیس وصول کی گئی ہے، انھیں اجرت حاصل کرنے میں مسائل تھے اور انھیں خطرناک حد تک زیادہ درجہ حرارت میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

Football

چند رپورٹس کے مطابق سنہ 2010 میں قطر کی جانب سے ورلڈ کپ کی بولی جیتنے کے بعد سے 6000 سے زیادہ تارکین وطن مزدور ہلاک ہو چکے ہیں۔

تاہم، قطری حکومت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی رپورٹ شدہ مجموعی تعداد گمراہ کن تھی، اور ورلڈ کپ سٹیڈیم کی تعمیراتی جگہوں پر مزدوروں میں 37 اموات ہوئیں، جن میں سے صرف تین ’کام سے متعلق‘ تھیں۔

قطری حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں’کفالہ‘ لیبر سپانسرشپ سسٹم جو غیر ملکی مزدوروں کو ملازمتیں تبدیل کرنے یا ملک چھوڑنے کے لیے اپنے آجر کی اجازت لینے پر مجبور کرتا تھا کا خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے۔

لیکن مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کچھ اصلاحات یقینی طور پر کچھ مزدوروں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں مگر  واضح طور پر کافی حد تک تبدیلیاں نہیں گئی ہیں۔‘

ورلڈ کپ میزبانی کی بولی کا متنازع فاتح

ہم جنس پرستوں اور مزدوروں کے حقوق پر ہونے والی تنقید سے بہت سے لوگوں کی طرف سے فیفا کے قطر کو ٹورنامنٹ کی میزبانی دینے کے فیصلے پر سوال اٹھانے کا باعث بنا ہے۔

اس سارے عمل کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور سنہ 2015 میں سوئس پراسیکوٹرز اور امریکہ محکمہ انصاف کی جانب سے اس پر دو تحقیقات بھی شروع کی گئی تھیں۔ قطر نے ہمیشہ کسی غلط کام کرنے کی تردید کی ہے، اور سنہ 2017 میں فیفا نے اپنی تحقیقات کے تحت بولی کو شفاف قرار دیا تھا۔

Football

اس فیصلے کے حامیوں نے مشورہ دیا ہے کہ کھیل کے ذریعے ممالک کو کھلنے اور تبدیلی لانے میں مدد کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن مصطفی کے خیال میں اس نے ’موجودہ انسانی حقوق کے مسائل پر زیادہ روشنی ڈالی ہے اور اس موقع کا اتنا استعمال نہیں کیا گیا۔ جتنا کیا جا سکتا تھا۔‘

ڈاکٹر گریگوری لونیڈس کا کہنا ہے کہ فیفا کی جانب سے قطر کو ٹورنامنٹ سے نوازنے کی ایک وجہ تبدیلی کو فروغ دینے کی کوشش کرنا ہے۔

’وہ اس کے ذریعے ملکی معاشرہ میں ’شمولیت` کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ اور اگر آپ اس ملک کو دنیا کے لیے کھول دیتے ہیں تو آپ اس ملک کو انفرادی آزادیوں وغیرہ کے معاملے میں مختلف نقطہ نظر اختیار کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔‘

لیکن ہم جنس پرستوں اور مزدوروں کے حقوق پر مسلسل بحث اور تنقید نے بہت سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ فیفا نے غلط فیصلہ کیا ہے۔

روس کو ٹورنامنٹ سے نکالنا

فٹبال

ایک شعبہ جہاں فیفا نے بین الاقوامی سطح پر زیادہ تعریفیں  سمیٹی ہیں وہ ہے کوالیفکیشن کے مراحل کے دوران روس کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کا فیصلہ۔

اگرچہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ ممالک کو میدان کے قواعد کی خلاف ورزی یا انتظامی خلاف ورزیوں پر معطل کیا جائے، یہ بہت زیادہ غیر معمولی بات ہے کہ کسی ٹیم کو فٹ بال سے متعلق جرم سے ہٹ کر ٹورنامنٹ کھیلنے سے روک دیا جائے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد صرف جرمنی اور جاپان، اور نسل پرستی کے دور میں جنوبی افریقہ کو اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر لونیڈس کہتے ہیں کہ ’فیفا سیاسی بیانات کو کھیل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن فیفا خود ایک سیاسی تنظیم ہے۔ اور لامحالہ فیفا کو سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔‘

روس کو ٹورنامنٹ سے نکالنے کا فیصلہ بالآخر اس وقت ہوا جب اس کے پلے آف مرحلے میں شامل دیگر ممالک، پولینڈ، جمہوریہ چیک اور سویڈن  نے یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج میں روسی ٹیم کے خلاف کھیلنے سے انکار کردیا۔

ڈاکٹر لوینڈس کا مزید کہنا ہے کہ اگر فیفا ایسا کرنے میں ناکام رہتا تو شاید دوسرے شریک ممالک سے انقلاب کا خطرہ تھا۔‘

اصلاحات

تمام تر عالمی ردعمل کے باوجود قطر کے امیر، تمیم بن حمد الثانی نے اپنے ملک کی جانب سے ورلڈ کپ کی میزبانی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ’اب کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ امتیازی سلوک کا شکار ہے، اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اس طرح کے امتیازی سلوک، زیادہ تر اس بات پر مبنی ہے کہ لوگ ہمیں نہیں جانتے، اور بعض صورتوں میں، ہمیں جاننے سے انکار کرتے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جب مختلف براعظموں میں دوسرے ممالک کی جانب سے کھیلوں کے میگا ایونٹ کی میزبانی کی گئی تھی تو لوگوں نے ’اس تیزی سے حملے نہیں کیے جس تیزی سے ہم پر حملے  کیے گئے ہیں، اور یہ کہ انھیں قطر کی جانب سے کی جانے والی ’ترقی اصلاحات اور پیش رفت پر فخر ہے۔‘لیکن ٹورنامنٹ کے قریب آتے ہی کھیل کے میدان سے اور اس سے باہر احتجاج اور تنازعات جاری رہنے کا امکان ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ورلڈ کپ فٹ بال کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر سرخیوں میں آتا رہے گا۔