سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے نیب میں ہونے والی حالیہ ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’پاکستان میں لوگ آئین کو سبوثاژ کرکے بھی گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’قوانین کا معیار عدالتیں نہیں، بلکہ آئین طے کرتا ہے۔‘
سوموار کے دن کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت کی طرف سے نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ بدعنوان افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے اور کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آ سکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہو گی؟
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟ وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد بہت سے مقدمات کو نیب سے لے کر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اور اگر ایسا ہوا تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایگزیکٹیو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہوں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ان کی یہ ذاتی رائے ہے کہ انھیں پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی۔ انھوں نے کہا کہ قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس ملک میں کرپشن ہو گی اس کا بیڑا غرق ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نا کرے۔ انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ اپنے ساتھی جج جسٹس اعجاز الاحسن کی بات سے متفق نظر نہیں آئے۔
انھوں نے ریمارکس دیے کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ملک میں کرپشن پر قوانین موجود ہی نا ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے گا؟
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں تو بنیادی حقوق کیسے متاثر ہو گئے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔