’میری بیٹی کو انسولین نہ ملی تو کیا یہ بچ پائے گی؟‘
’ہم سنہ 2022 میں ہیں اور 100 سال قبل پہلی بار ایک بچے کو انسولین لگائی گئی تھی۔ مگر یہ زندگی بچانے والی دوا دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر دستیاب ہے نہ سستی۔‘
یہ کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف سڈنی میں سڈنی میڈیکل سکول کے پروفیسر گراہم اوگل کا۔
وہ اس تحقیق کے مصنفین میں سے ہیں جس میں انسولین تک عدم رسائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 39 لاکھ لوگ آج زندہ ہوتے اگر ان کی ٹائپ ون ذیابیطس کو بروقت روکا جاتا۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہوتا اگر انھیں انسولین کے یومیہ ٹیکے مل پاتے۔
ٹائپ ون ذیابیطس (ٹی ون ڈی) کیا ہے؟
ٹائپ ون ذیابیطس سے مراد ایسی حالت ہے جس میں لبلبہ قدرتی طور پر جسم میں انسولین نہیں بنا پاتا۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ خون میں گلوکوس کی مقدار کی قابو میں رکھا جاسکے۔
گلوکوس خون میں شوگر (چینی) کی مرکزی قسم ہے۔ یہ جسم میں خلیات کے لیے توانائی کا بڑا ذریعہ ہے۔
ٹی ون ڈی کی حالت تب پیدا ہوتی ہے جب خون میں گلوکوس کی سطح بے قابو ہوجائے۔ تو اسے قابو کرنے کے لیے انسولین کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص زندگی کے اوائل میں بھی ممکن ہے۔
ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثرہ افراد کو روزانہ اپنے خون میں شوگر کی مقدار چیک کرنی پڑتی ہے۔ جسم کی حرکت اور خوراک سے انسولین کی درکار مقدار متاثر ہوتی ہے۔
ٹائپ ون ذیابیطس کے کیسز 2040 تک دگنے ہوسکتے ہیں
کئی ملکوں میں ٹائپ ون ذیابیطس سے متعلق ڈیٹا وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں ہے۔ اسی لیے زیادہ تر انحصار یورپ اور شمالی امریکہ سے ملنے والی معلومات پر کیا جاتا رہا۔
مگر سال 2021 میں محققین نے ایک ماڈل تیار کیا جس سے 201 ملکوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کے مختلف پہلوؤں کا تخمینہ لگایا جاسکے۔
اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آبادی کے تناسب سے ایک وقت میں اس کے کتنے کیسز ہیں، اس سے کتنی اموات ہوئیں اور اس کی وجہ سے اوسط زندگی پر کتنا فرق پڑا۔
اس ماڈل کی مدد سے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2040 تک دنیا بھر میں ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 74 لاکھ ہوجائے گی۔
تحقیق کے مطابق اس وقت امریکہ، انڈیا، برازیل، چین، جرمنی، برطانیہ، روس، کینیڈا، سعودی عرب اور سپین وہ دس ملک ہیں جہاں ٹائپ ون ذیابیطس کے سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔
ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ شمالی یورپ کے ملکوں فن لینڈ اور سویڈن جبکہ مشرق وسطیٰ میں کویت اور قطر میں 14 سال سے کم عمر متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اس نئے ماڈل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک شخص نے کتنے برسوں کی صحت مند زندگی کھو دی ہے۔ تاہم کئی ملکوں میں اس کے اعداد و شمار مختلف ہیں کیونکہ یہ حالت سب سے زیادہ کم آمدن والے ملکوں کو متاثر کرتی ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق سری لنکا میں اس بیماری کی وجہ سے ایک شخص اپنی صحت مند زندگی کے 48 سال کھو دیتا ہے۔ یہ اعداد و شمار جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
سری لنکا کو پہلے سے کہیں سنگین معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے اور اس کی 14 ہزار سے زیادہ کی آبادی ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثرہ ہے۔
’اگر مناسب انسولین دستیاب نہ رہی تو ہم کیا کریں گے؟‘
13 سال کے ستھسرانی جنوب مشرقی سری لنکا کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی والدہ سدیشکا نے بی بی سی کو بتایا کہ سات سال قبل ان میں ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص کی گئی تھی جب وہ ایک دوسرے عارضے کے لیے زیرِ علاج تھیں۔
وہ ہر ماہ 200 کلو میٹر دور سفر کر کے مرکزی سری لنکا میں ایک سرکاری کلینک جاتے تاکہ بیٹی کو درکار انسولین مل سکے۔
مگر اب سری لنکا بھر کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ معاشی بحران کے باعث ہسپتالوں میں ادویات اور ضروری سامان ختم ہو رہا ہے۔
سدیشکا نے کہا کہ ’بسوں کے کرایے بڑھ گئے ہیں۔ ہم قریب دو ماہ سے کلینک نہیں جا پائے۔‘
ان کی بیٹی کو اب ایک انفیکشن کی وجہ سے ایک ماہ کے لیے ہسپتال داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ تاحال معلوم نہیں۔ ’وہ دو ماہ تک سکول نہ جاسکیں اور اکثر بیہوش ہوجاتی ہیں۔‘
سرکاری کلینک سے مفت انسولین خریدنے کے بجائے سیدشکا کو ایک مقامی دوا خانے سے انسولین خریدنا پڑی اور وہ بھی ان تھوڑے سے پیسوں سے جو ان کے شوہر کھیتی باڑی کر کے کماتے ہیں۔
’اس ماہ انھیں ضرورت کی نسبت کم انسولین دی گئی۔ انھوں نے ہمیں اگلے ماہ دوبارہ آنے کا کہا اور بتایا کہ تب تک مزید انسولین پہنچ جائے گی۔‘
سری لنکا کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے مالی مدد کی امید ہے۔ مگر سدیشکا کو اپنی بیٹی کی صحت کی فکر ہے۔ یہاں کئی والدین ہیں جن کے بچے ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثرہ ہیں۔
وہ مایوس ہو کر پوچھتی ہیں کہ ’مجھے فکر ہے کہ میرے بچے کو انسولین نہ ملی تو کیا ہوگا۔ ہم کیا کریں گے اگر یہ انسولین کافی نہ ہوتی؟‘
ذیابیطس کی تشخیص
نئے اعداد و شمار کے مطابق ٹائپ ون ذیابیطس کے 87 لاکھ متاثرین میں سے 15 لاکھ بچے اور 20 سال سے کم عمر افراد ہیں۔ ان کا مستقبل کیسا ہوگا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق سستی انسولین کی عدم دستیابی کی وجہ سے کم آمدن والے ملکوں میں ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثرہ ایک دس سال کے بچے کی اوسط بقیہ زندگی صرف 13 سال رہ جاتی ہے (جو کہ زیادہ آمدن والے ملکوں میں 61 برس ہوتی ہے)۔
ماہرین زور دیتے ہیں کہ بچوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کی جلد تشخیص ضروری ہے۔ پروفیسر اوگل کے مطابق ’ہمارا اندازہ ہے کہ ہر سال 35 ہزار نوجوان اس کی غلط تشخیص کی وجہ سے وفات پاتے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ بچوں کو ذیابیطس نہیں ہوتی۔ مگر یہ ممکن ہے۔‘
صورتحال کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
تحقیق کے مطابق چار طریقوں سے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں:
وقت پر تشخیص: ٹائپ ون ذیابیطس کی جلد تشخیص سے 2040 تک چھ لاکھ 68 ہزار افراد زندہ رہ پائیں گے۔
انسولین اور سٹرپس: اگر دنیا بھر میں انسولین، ٹیسٹ سٹرپس اور دیگر سامان تک رسائی ممکن بنائی جاسکے تو 2040 تک قریب 20 لاکھ لوگ زندہ رہ سکتے ہیں۔
پمپس اور گلوکوس کی باقاعدہ مانیٹرنگ: انسولین پمپ سے مراد وہ طبی ڈیوائس ہے جو خون میں پورے دن تک انسولین کی کچھ مقدار فراہم کرتی ہے۔ اگر ہر کسی کو گلوکوس مانیٹرنگ کی خودکار ٹیکنالوجی اور انسولین ڈیلوری مل جائے تو 2040 تک مزید چھ لاکھ 73 ہزار لوگ زندہ بچ سکتے ہیں۔
روک تھام اور علاج: علاج اور روک تھام کے نئے طریقوں پر تحقیق کے ذریعے ہم ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کا معیارِ زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔
پروفیسر اوگل نے کہا کہ اگر تمام ملکوں میں یہ طریقے اپنائے جائیں تو ذیابیطس سے متاثرہ لوگ خطرناک پیچیدگیوں سے قبل از وقت اموات یا شدید بیماری کی حالت میں رہنے کے بجائے مکمل صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔
پیسہ بچانا اور اموات روکنا
اس تحقیق میں عالمی ڈیٹا کی مدد سے ایک لائیو ٹول بنایا گیا ہے۔
پروفیسر اوگل کا کہنا ہے کہ اس میں تمام ملکوں میں ذیابیطس سے متاثرہ لوگوں، نوجوانوں اور اموات کی فہرست موجود ہے۔
’اب لوگ اپنی حکومتوں سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو ہماری مدد کرنا ہوگی اور سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا کیونکہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ صحت مند رہ سکتے ہیں اور آپ زندگیاں بچا سکتے ہیں۔‘
پروفیسر اوگل نے زور دیا ہے کہ نوجوانوں کو ذیابیطس سے متاثرہ لوگوں اور طبی پیسے سے وابستہ لوگوں کے درمیان خلیج کو کم کرنا ہوگا۔