پا کستانی سیاست کا المیہ رہا ہے کہ ہر سیاسی جماعت دور اپوزیشن انتقامی سیاست کے مخالف جدوجہد کرتی ہے،مگر برسر اقتدار آتے ہی اپنے مخالفین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کیس بھی ضمانتی فیصلے کے بعداسی انتقامی سیاست کا خا کشانہ نظر آتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کو یکم جولائی 2019ء کو ہیروئن رکھنے کے الزام میں انسداد منشیات فورس (اے۔ این۔ ایف) نے گرفتار کیا تھا۔ یہ پورا معاملہ پہلے ہی دن سے مشکوک ہو گیا تھا،کیونکہ گرفتاری کے وقت مشکوک کمزور تفتیشی طرز عمل اور بعدازاں پرس کا نفرنس میں متضاد اظہار خیال نے واضح کردیا تھا کہ سکرپٹ میں جھول ہے۔ اگر رانا ثناء اللہ پر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جاتا تو بات سمجھ میں بھی آتی، لیکن منشیات فروشی کے الزام میں گرفتاری کسی باشعورکو ہضم نہیں ہورہی تھی،حالیہ عدالت عالیہ لاہور سے ان کی ضمانت کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں، اے این ایف کی غلطیاں اور سب سے بڑھ کر وفاقی وزیر شہریار آفریدی کے کھوکھلے دعوے ایک بار پھرزیر بحث بنے ہوئے ہیں،جبکہ دوسری جانب حکومتی تر جمان فردوس عاشق اعوان نے عدالت عالیہ کے اختیارات پر سوال اٹھا دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عدالت کو اس مقدمے میں ضمانت دینے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ محترمہ پہلے بھی توہین عدالت کا ارتکاب کر کے معافی مانگ چکی ہیں، انہیں احتیاط کا دامن نہیں چھورنا چاہئے۔ اگر کسی کو چھ ماہ تک حراست میں رکھنے کے باوجود جرم کے ثبوت پیش نہیں کیے جائیں گے اورریفرنس دائر نہیں کیا جائے گا تو عدالت کو ضمانت منظور کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عوام نے تحریک انصاف کو اقتدار قومی لٹیروں کے احتساب کے وعدے پر دیا تھا،وزیر اعظم عمران خان کے نیت پر کسی کو شک نہیں،مگر ناقص احتسابی عمل نے حکومتی رویئے کے ساتھ اداروں کی کاکردگی کو مشکوک بنا دیا ہے۔عوام کواپوزیشن کے انتقامی سیاست کے بیانئے پر کمزور احتسابی عمل کی وجہ سے یقین آنے لگا ہے،کیو نکہ اداروں کی کاروائی میں جب حکومت خود کو ملوث کرتے ہو ئے وضاحتیں پیش کرنے لگے تودونوں پر انگلی اُٹھے گی۔ رانا ثناء اللہ کی ضمانت پرفردوس عاشق ا عوان کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا انوکھا فیصلہ ہے، منشیات کیس میں ضمانت دے کر نئی مثال قائم کی گئی،ٹرائل ہو گا تو ثبوت بھی دیں گے، ہیروئن کے پیچھے موجود مافیا کو پیسوں اور وسائل کی کمی نہیں، پہلے جج تعینات نہ ہوسکا، جج آگے تو رانا ثناء کے وکیلوں نے ٹرائل شروع نہیں ہونے دیا۔اس بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ معاون خصوصی کیس کے حوالے سے لا علم ہیں،جہاں تک ٹرائل کی بات ہے تو کب شروع ہوگا؟ کیا مزید دو، چار سال لگیں گے، اگر کوئی ہیروئن مافیا اس معاملے کے پیچھے ہے تو اسے بے نقاب کون کرے گا؟ مقدمے کی سماعت کے لیے جس جج کو م تعینات کیا گیا تھا، اس کا تبادلہ کس نے کیا؟ کیا ان سب وجوہات کے پیچھے بھی رانا ثناء اللہ ہے۔ وفاقی وزیر شہریار آفریدی بھی بار بار یہی کہتے ہیں کہ چار جج تبدیل کیے گئے، انہوں نے خدا کو جان دینی ہے، بتائیں کون سے چار جج تبدیل ہوئے؟ یہ بے خبری نہیں صریحاً اُن کی غلط بیانیاں ہیں جو تواتر سے کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ تو نہیں کہ رانا ثناء اللہ بہت زیادہ بولنے لگے تھے اور گفتگو کے دوران اداروں پر تنقید کرجاتے تھے، شائد اسی لیے زباں بندی کا فیصلہ بہت اونچی سطح پر کیا گیا۔ اس کیس میں سب سے زیادہ سبکی وفاقی وزیر شہریار آفریدی کی ہوئی، بشرطیکہ محسوس کریں، اس کے آثار نظر نہیں آتے،کیو نکہ ان کا مسلسل اصرار ہے کہ انہوں نے اللہ کو جان دینی ہے۔ یہ انکشاف ہے یا حکومتی کابینہ میں سے واحد ہیں جو اللہ کو جان دیں گے۔ اس تکرار کی نشاندہی پر شہریارافریدی
میڈیا پر برہم ہو رہے تھے،حالا نکہ انہوں نے تویہاں تک کہا تھا کہ اگر کسی بے گناہ پر الزام لگائیں تو مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہو،لیکن وہ اپنی تضاد بیانوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔بقول اُن کے رانا ثناء اللہ کی گاڑی کو 3 ہفتے تک تعقب کیا گیا، اس کی فوٹیجز موجود ہیں۔ اگر تمام فوٹیجز سمیت ثبوت عدالت میں پیش کردیئے جاتے تو آج راناثنااللہ کبھی رہا نہ ہوتے،مگر بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔حیرت کی بات ہے کہ تین ہفتے تک گاڑی کا تعاقب کیا گیااو رسابق وزیر قانون رانا ثنااللہ تعاقب سے بالکل بے خبر رہے اپنی گاڑی میں ہیروئن لیے پھرتے رہے۔ اس ہیروئن کے بارے میں پہلے بتایا گیا کہ 21کلو ہے جوبعد ازاں 15کلو رہ گئی، ان کی گرفتاری اور گاڑی کی پیش کردہ فوٹیج میں بوقت کے بارے واضح تضاد ہے۔ پہلی پریس کانفرنس میں شہریارافریدی کے ساتھ بیٹھے اے این ایف کے افسر نے بھی فوٹیج سے انکار کیاتھا۔ اللہ کو جان سبھی نے دینی ہے، مگر بے پر کی اُڑا کر کیوں اپنی جان کو ناگہانی عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب پیدا کیا جا رہا ہے۔ایک ملزم چھوٹتا ہے تو تین مزید پکڑ لیے جاتے ہیں، اب احسن اقبال جیل میں ہیں جن پر ڈھائی ارب کے منصوبے میں چھ ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگایا جارہا ہے۔ا گر رانا ثناء اللہ پر الزام ثابت نہ ہوسکا تو انصاف کا تقاضہ ہے کہ الزام لگانے والوں کوپکڑکر نشان عبرت بنایا جائے،مگر ایسا کبھی نہیں ہوسکے گا۔
بلا شبہ تحر یک انصاف حکومت کاکرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب ایک مثبت قدم ہے اور ملک کی تمام سیاسی و جمہوری قوتیں اس بات پر متفق بھی ہیں کہ احتساب بلاامتیاز ہو اور بدعنوان افراد سے سختی سے نمٹا جائے،تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب پر سیاسی انتقام کا الزام نہ آنے پائے، اس کی شفافیت اور غیرجانبداری پر بھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقا پر لازم ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ کے مقدمے کی فائل خود ملاحظہ کریں،عدالت عالیہ کے فیصلے کا بھی قانونی ماہرین کی مشاورت سے بغور مطالعہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی مخالف کے ساتھ بھی اللہ،رسول پاک کے نام پر بے انصافی نہ ہو،اس وقت قومی سیاست کو انتقامی کارروائیوں کے زہر سے پاک کرنے کی اشد ضرورت ہے،ماضی میں ہم اس کا سخت نقصان اٹھا چکے ہیں، اگر اس کے راستے میں اب بھی دیوار کھڑی نہ کی گئی تو حال اور مستقبل دونوں شدت سے متاثر ہوں گے۔خیال رہے کہ اگرآج حکمران مخالفت برائے مخالفت میں کانٹے بوئیں گے تو پھر کل انہیں کانٹوں ہی کی فصل کاٹنا پڑے گی۔