Site icon DUNYA PAKISTAN

لکی مروت: پولیس موبائل پر دہشتگردوں کی فائرنگ، 6 اہلکار شہید

Share

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس موبائل پر دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں 6 پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔

پولیس کے مطابق دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بننے والی پولیس موبائل تھانہ ڈاڈیوالہ میں گشت کر رہی تھی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والوں میں پولیس موبائل کا ڈرائیور اور ڈیوٹی انچارج بھی شامل ہیں، پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے شہید ہونے والوں کی درجات کی بلندی اور غمزدہ لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، شہدا کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں، ملک کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔

انہوں نے شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’دھرتی کے عظیم سپوتوں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا‘۔

شہباز شریف نے حکومت خیبرپختونخوا پر زور دیا کہ وہ شہید پولیس اہلکاروں کے لیے فوری طور پر شہدا پیکج کا اعلان کرے۔

ادھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی لکی مروت میں پولیس وین پر دہشت گرد حملے کی مذمت اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی بزدلانہ کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔

بدھ کو ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے دہشت گردی کے واقعے میں قیمتی جانی نقصان پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ۔

صدرمملکت نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، قوم اپنے شہداء پر فخر کرتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف اور ڈپٹی اسپیکر زاہد درانی نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔

قومی اسمبلی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ بیان کے مطابق انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور قوت کے ساتھ کارروائی کرنے کے لیے حکومت پر بھی زور دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران خیبرپختونخوا اور جنوبی وزیرستان سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

11 نومبر کو شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں ایک خودکش حملے میں 5 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران یہ سیکیورٹی فورسز پر ہونے والا دوسرا حملہ تھا، 23 اکتوبر کو میر علی میں ایک خودکش حملہ آور نے قافلے پر حملہ کیا جس میں 21 فوجی زخمی ہوئے تھے۔

دہشت گردی کی اس تازہ لہر کے خلاف مذکورہ علاقوں کے عوام مسلسل سراپا احتجاج بھی ہیں۔

گزشتہ مہینے چار باغ میں اسکول وین پر فائرنگ کے بعد دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرانے کے لیے خیبرپختونخوا کے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے، اس واقعے میں ایک ڈرائیور اور 2 بچے جاں بحق ہوئے تھے۔

3 روز قبل جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سیکڑوں افراد سڑکوں پر نکلے اور دہشت گردی کی حالیہ لہر کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے سول انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور علاقے میں امن و امان بحال کرے۔

وانا سیاسی اتحاد کی جانب سے ’امن مارچ‘ کے عنوان سے بڑا احتجاج کیا گیا، شرکا نے وانا بازار سے ریلی نکالی اور جاوید سلطان کیمپس کے قریب جمع ہوئے، جنہوں نے کالے جھنڈے تھامے ہوئے تھے، مظاہرے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین نے بھی شرکت کی تھی۔

Exit mobile version