کالم

انگلینڈ بنی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ چمپئین

Share

کرکٹ کھیلنا یا کرکٹ کا شیدائی ہونا ہر ہندوستانی اور پاکستانی جسے اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔کیا بچہ، کیا بڑا اور کیا خواتین، اب تو ہندوستان اور پاکستان میں کرکٹ کے بنا آپ زندگی گزار ہی نہیں سکتے ہیں۔

اور اگر میچ ہندوستان اور پاکستان کے مابین کھیلا جارہا ہو تو مت پوچھئے۔ کئی روز تک لوگ اسی بحث میں الجھے ہوتے ہیں کہ ہندوستان کی ٹیم بہت مضبوط ہے تو وہیں پاکستانی کہتے ہیں اس بار انڈیا کو ہرا کر ہی دم لیں گے۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔اسٹیڈیم بھی رنگ برنگے ہندوستانی اور پاکستانی شیدائیوں کے ڈھول، باجے اور رنگ برنگے لباس سے تفریح کا سما بندھا رہتا ہے۔ اب تو پر جوش مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ خوب اچھلتی کودتی دکھائی دیتی ہیں۔ جس سے کرکٹ دیکھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔اور کچھ پل کے لئے ذہن سے تناؤ دور چلا جاتا ہے۔

میں نے بھی کرکٹ کھیلی ہے۔ پہلے کلکتہ کے مقامی کلب کی طرف سے اور پھر جب لندن آیا تو سرے لیگ کے تھرڈ ڈویزن کے سینٹ لیوک کرکٹ کلب کی نمائندگی کرتے ہوئے دو سال کپتانی بھی کی تھی۔تاہم انگلینڈ میں کرکٹ کھینے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ سرے لیگ کے تھرڈ ڈویزن میں کھیلنے کے باوجود میچ سے لے کر سیزن کے آخری دن کی پارٹی کا اہتمام اتنے آن و شان سے ہوتا کہ مجھے بھی کبھی کبھی غلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں بھی کوہلی اور آفریدی سے کم نہیں ہوں۔تاہم یہ صرف ایک گمان تھا۔1983میں دو اہم واقعات میری زندگی میں ہوئے۔ ایک تو اسی سال ہندوستان، انگلینڈ میں کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر کرکٹ کی دنیا میں ایک بھونچال سا آگیا۔ اور دوسرا میرا میٹرک کا امتحان پاس کرنا تھا۔ تاہم یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ میں نے میٹرک کا امتحان پہلی بار 1982فیل ہونے کے بعد دوسری بار میں پاس کیا تھا۔ ویسے یہ بات معروف دانشور اشفاق احمد اشفاق کے ساتھ بھی ہوئی تھی جنہوں نے اپنے ایک انٹرویو بتایا کہ وہ میٹرک میں ریاضی میں کمزور ہونے کی وجہ سے فیل ہوگئے تھے۔ ٹھیک اسی طرح میں بھی ریاضی میں کمزور ہونے کی وجہ سے فیل ہوگیا تھا۔خیر ہندوستان کے ورلڈ کپ جیتنے کی خوشی ہم نے ہندوستان میں آدھی رات کو منائی تھی۔

اس کے بعد ہندوستان میں کرکٹ کھیلنے کا ایسا بخار چڑھا کہ مت پوچھئے۔ کیا گلی اور کیا محلہ اور کیا میدان ہر جگہ کرکٹ کھیلنے والوں کا جمگھٹا دیکھا جانے لگا۔ایک بار تو میری قسمت نے مجھے موقعہ بھی دیا جب میں کالج کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ٹریننگ میں یوں تو ہم نے تین وکٹیں بھی لی تھیں لیکن اثر و رسوخ کی کمی اور خوشامد نہ کرنے کی عادت نے مجھے کالج کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے سے محروم رکھا۔ خیر کسی کلب کے لئے کرکٹ کھیلوں، یہ خواب لندن آنے کے بعد پورا ہوگیا۔
سات سال قبل آسٹریلیا نے انگلش محدود اوورز کی کرکٹ کا نادر مشاہدہ کیا۔ انگلینڈ کو بنگلہ دیش نے باہر کر دیا اور پچاس اوور کے ورلڈ کپ کے کواٹر فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہا۔ اب آسٹریلیا نے انگلش محدود اوورز کی کرکٹ کی میزبانی کی۔ میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں اسّی ہزار کے ہجوم نے انگلینڈ کو پاکستان کو شکست دیتے ہوئے دیکھا۔

انگلینڈ کے تعاقب کی آخری گیند کا سامنا کرنے والا وہ شخص تین سال قبل نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے ورلڈ کپ کے فائنل میں لارڈز کے میدان بھی موجود تھا۔ صرف اس بار بین اسٹوکس نے محمد وسیم کو مڈ وکٹ پر فِلک کر کے انگلینڈ کی فتح پر مہر ثبت کر دی۔جب بین اسٹوکس پندرہ مہینوں تک ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ایک بھی کھیل کھیلے بغیر منتخب کیا گیا تھا تو انگلینڈ کے کرکٹ پنڈت امید افزا نہیں تھے۔ لیکن بین اسٹوکس نے ساری قیاس آرائیوں کو اپنی شاندار کارگردگی سے غلط ثابت کر دیا۔

اس کے علاوہ انگلینڈ کے دو اہم مسلم کھلاڑیوں نے پورے ٹورنامنٹ میں اپنی شاندار کارگردگی سے انگلینڈ کو فائنل پہچانے اور جتانے میں اہم رول نبھایا۔پچھلے تین کھیلوں میں عادل رشید نے اپنی ذہانت، لیگ بریک اورگوگلی سے پاکستان کے محمد حارث اور پھر بابر اعظم کو آوٹ کیا۔ عادل رشید نے اپنے کیرئیر میں تیسری بار بابر اعظم کو گوگلی سے آوٹ کیا۔وہیں انگلینڈ کے نائب کپتان معین علی نے بھی پورے ٹورنامنٹ میں اپنی شاندارکارگردگی سے انگلینڈ کو ٹی ٹوئنٹی جتانے میں اہم رول نبھایا۔ایک وقت میں جب انگلینڈ ٹورنامنٹ سے لگ بھگ باہر ہوچکی تھی تو معین علی نے تب بھی کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ انگلینڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں پہنچے گی۔ اور آخر ایساہی ہوا۔

لیکن سب سے دردناک اور ذلیل شکست تو انگلینڈ نے ہندوستان کو دی۔ جب سیمی فائنل میں انگلینڈ نے اتنا عمدہ اور شاندار کرکٹ کا مظاہرہ کیا کہ ہندوستان ہار کے بعد سکتے میں چلی گئی۔ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہندوستان اتنی بری طرح ہار جائے گی۔
انگلینڈ کی اس شاندار جیت نے اسی دن اس بات کو ثابت کر دیا کہ اب ٹی ٹوئنٹی کی چمپئن انگلینڈ ہی ہوگی۔ہندوستان کے اس ہار سے میرے ساتھ کروڑوں ہندوستانی کرکٹ شیدائی کو زبردست دھچکا پہنچا۔ویسے ہندوستان نے پورے ٹورنامنٹ میں اپنی شاندار کھیل سے لوگوں کی امیدیں اتنی بڑھا دی تھی کہ ہندوستانی شیدائی یہ بھول ہی گئے کہ ٹی ٹوئنٹی میں کچھ بھی کہنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ 2022میں جہاں بڑی ٹیموں نے اپنے کھیل سے لوگوں کا دل جیتا وہیں اس بار ہالینڈاور آئرلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے اپنی شاندار کارگردگی سے یہ ثابت کر دیا کہ آنے والے دنوں میں یہ ٹیمیں کرکٹ میں اہم ٹیم کے طور پر ابھرے گی۔ میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں جس نے اپنی شاندار کارگردگی سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا۔اور پاکستان کی ٹیم کو بھی مبارک باد دوں جس نے شروعاتی ہار کے باوجود فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرا کر دل خوش کر دیا۔ میں ہندوستان کی ٹیم سے بھی امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی خوش فہمی کو بالائے طاق رکھ کر کرکٹ کھیلے تاکہ ہندوستانی شیدائی جو ایک کے بعد ایک ٹورنامنٹ ہارنے سے کافی دل برداشتہ ہوچکے ہیں اور ان کا اعتماد دوبارہ بحال ہو۔