’مُردوں کا ٹیلہ‘: پاکستان میں واقع 40 ہزار کی آبادی والا ’جدید شہر‘ جس میں رہنے والے کہاں گئے، کچھ معلوم نہیں
پاکستان کے گرد آلود جنوبی صوبے سندھ کے میدانوں میں دنیا کی ایک قدیم تہذیب کے بہت ہی حیران کن کھنڈرات موجود ہیں جن کے بارے میں دنیا کے اکثر لوگوں نے کبھی سُنا ہی نہیں ہے۔
جب میں دنیا کے اس قدیم شہر میں تھی تو میں نے اس کے ماحول کا جائزہ لیا تو ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں نے گرمی کی شدت کو کم کر دیا۔ لاکھوں سرخ اینٹوں کے ذریعے یہاں پیدل چلنے کے رستے اور کنویں بنے ہوئے تھے، جو مختلف محلوں کے جال کو ایک دوسرے سے ملاتے ہوئے نظر آئے۔
بودھ مت کا ایک قدیم گول گنبد بوسیدہ حالت میں قائم نظر آیا، جس کے نیچے وسیع سیڑھیوں پر مشتمل حمام والا تالاب بنا ہوا ہے۔ یہاں صرف چند لوگ ہی موجود تھے۔
میں لاڑکانہ شہر کے اُن کھنڈرات میں تھی جو مرکزی شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھے، اس قدیم شہر کا نام موئن جو دڑو تھا۔ آج اس شہر کے محض کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں، 4,500 سال پہلے یہ نہ صرف دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک تھا بلکہ ایک ترقی پزیر خطہ تھا جس میں اپنے دور کے لحاظ سے انتہائی جدید انفراسٹرکچر موجود تھا۔
موئن جو دڑو، جس کا سندھی زبان میں مطلب ’مردہ ٹیلہ‘ ہے، ایک زمانے میں پھلنے پھولنے والی وادی سندھ کی تہذیب (جسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے) کا سب سے بڑا شہر تھا جس نے کانسی کے دور میں شمال مشرقی افغانستان سے شمال مغربی ہندوستان تک اپنا عروج دیکھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو میں کم از کم 40,000 لوگ آباد تھے، اس شہر نے 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح تک ترقی کی۔
ارشاد علی سولنگی ایک مقامی گائیڈ ہیں جو موئن جو دڑو میں کام کرنے والے اپنے خاندان کی تیسری نسل سے ہیں۔ سولنگی نے وضاحت کی کہ ’یہ ایک شہری مرکز تھا جس کے سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور مذہبی روابط میسوپوٹیمیا اور مصر کے ساتھ تھے۔‘
لیکن قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے شہروں کے مقابلے میں، جنھوں نے ایک ہی وقت میں ترقی کی تھی، موئن جو دڑو کا نام پاکستان سے باہر بہت کم لوگوں نے سُنا ہے۔ یہ 1700 قبل مسیح میں ختم ہو گیا تھا، اور آج تک کسی کو قطعی طور پر یقین نہیں ہے کہ اس شہر کے باشندے یہاں سے کیوں نقل مکانی کر گئے یا وہ کہاں گئے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین پہلی بار 1911 میں اس علاقے میں اینٹوں کے کام کی اطلاعات سننے کے بعد آئے تھے۔ تاہم آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے یہاں سے برآمد ہونے والی اینٹوں کے بارے اس خیال کو ابتدا میں مسترد کر دیا کہ یہ قدیم دور کی ہو سکتی ہیں اور نتیجتاً یہ جگہ مزید کئی برسوں تک غیر محفوظ رہی۔
1922 تک جب آر ڈی بنرجی، ایک اے ایس آئی افسر کی یہاں تعیناتی تک اس کی اہمیت کو کسی نے محسوس نہیں کیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس نے اس جگہ ایک مدفون گنبد دیکھا، ایک ٹیلے جیسا ڈھانچہ جہاں بودھ مت کے پیروکار عموماً مراقبے کے لیے بیٹھتے تھے۔
ان کی اس رائے کی وجہ سے اس علاقے میں کھدائی کے کام کا آغاز ہوا اور 1980 میں یونیسکو نے موئن جو دڑو کا نام عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا۔ اس قدیم شہر کی جو باقیات خاص طور پر برطانوی ماہر آثار قدیمہ کے ماہ سر جان مارشل نے دریافت کیں ان سے اس کے شہری زندگی کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے، جس کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
یونیسکو نے موئن جو دڑو کو وادی سندھ کے ’بہترین محفوظ‘ کھنڈر کے طور پر سراہا۔
شاید شہر کی سب سے حیران کن خصوصیت صفائی کا نظام تھا جو اس کے ہم عصروں سے کہیں زیادہ جدید تھا جبکہ مصر اور میسوپوٹیمیا میں نکاسی آب اور نجی بیت الخلا دیکھے گئے، لیکن وہ محض امیروں کی عیش و عشرت کے لیے تھے۔
موئن جو دڑو میں جگہ جگہ چھپے ہوئے بیت الخلا اور ڈھکے ہوئے نالے اور نالیاں بنی ہوئی تھیں۔ جب سے کھدائی شروع ہوئی ہے، اجتماعی استعمال کے لیے 12 میٹر ضرب 7 میٹر کے ایک بہت بڑے ’عظیم حمام‘ سمیت نجی حماموں کے نظام کے علاوہ 700 سے زیادہ کنویں برآمد کیے جا چکے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر بہت سے نجی رہائش گاہوں میں بیت الخلا پائے گئے اور کچرے کو ایک جدید ترین سیوریج کے نظام کے ذریعے خفیہ طور پر ٹھکانے لگایا جاتا تھا۔
یہ ایک شہر کا پیچیدہ اور جدید نظام ہے جس میں ہم آج کے دور میں رہنا چاہیں گے
بروکلین کے پریٹ انسٹیٹیوٹ کی ماہر آثار قدیمہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر عظمیٰ زیڈ رضوی نے کہا کہ ’یہ ایک شہر کا پیچیدہ اور جدید نظام ہے جس میں ہم آج کے دور میں رہنا چاہیں گے۔‘
عظمیٰ زیڈ رضوی نے 2011 میں اس قدیم شہر کے بارے میں ایک مقالہ بعنوان ’موئن جو دڑو، دی باڈی، اینڈ دی ڈومیسٹیکیشن آف ویسٹ‘ لکھا تھا۔
موئن جو دڑو کے باسی بھی اپنے ماحول کو سمجھتے تھے۔ چونکہ یہ شہر دریائے سندھ کے بالکل مغرب میں واقع تھا، اس لیے انھوں نے سالانہ سیلاب سے خود کو بچانے کے لیے متاثر کن سیلابی دفاعی بند اور نکاسی آب کے نظام بنائے ہوئے تھے۔
مزید یہ کہ موئن جو دڑو سمندری تجارتی رابطوں کے درمیان ایک کلیدی مرکز تھا جو وسطی ایشیا سے مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا تھا۔ صدیوں سے انھوں نے مٹی کے برتنوں، زیورات، مجسموں اور دیگر اشیا کے پیچیدہ تراشے ہوئے ٹکڑے تیار کیے جو میسوپوٹیمیا سے لے کر موجودہ عمان تک ہر جگہ دریافت ہوئے ہیں۔
آج اس قدیم شہر کے کھنڈرات کو پکنک ٹیبلز اور سایہ دار درختوں اور سرسبز باغات کے ساتھ ایک مقامی پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان کے دوسرے حصوں سے سیاح شاذ و نادر ہی اس دور دراز مقام پر آتے ہیں اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد تو بہت ہی کم آتی ہے۔
میں نے اس شہر کی قدیم پیچیدہ گلیوں میں گھومتے ہوئے بہت سے کنویں، اونچی دیواریں جو بہت ضروری سایہ فراہم کرتی تھیں، اور نکاسئِ آب کے لیے ڈھکی ہوئی نالیاں دیکھی ہیں جو بہت حیران کر دیتی ہیں کہ یہ سب کچھ کئی ہزار سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔
موئن جو دڑو کی صفائی ستھرائی اور گندے پانی کو ٹھکانے لگانے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی وہ واحد اعلیٰ خصوصیات نہیں تھیں جنھوں نے باشندوں کو دیگر ابتدائی تہذیبوں سے ممتاز کیا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے مشینوں کی کمی کے باوجود معیاری تعمیراتی مواد کے استعمال کو خاص کر سراہا ہے۔
رضوی نے وضاحت کی کہ ’تمام اینٹوں کا تناسب 4:2:1 ہے، اگرچہ وہ ایک ہی شکل کی نہیں ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تمام اینٹیں ایک طرح کے ڈیزائین کی حساسیت کی پیروی کر رہی ہیں۔ اس بات کا احساس ہے کہ وہ اپنے شہر کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ہر چیز کو ایک تناسب کے مطابق بناتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خالی جگہیں جن سے آپ گزر رہے ہیں، تو فطری طور پر ایک مخصوص ڈیزائن کی پیروی کرتے ہیں جو تناسب کی حساسیت بھی ظاہر کرتی ہے۔‘
یہ اینٹیں جنھیں دھوپ میں خشک کر کے بھٹے میں جلایا جاتا تھا، ہزاروں سال گزرنے کے باوجود مضبوطی کے ساتھ برقرار ہیں۔ اور جب کہ شاندار فن تعمیر جیسا کہ حویلیاں، عبادت گاہیں اور سماجی حیثیت کا تعین کرنے والی دیگر عمارتیں اور دیگر اشارے موئن جو دڑو کے ڈیزائن میں نظر نہیں آتے ہیں۔
عظمیٰ رضوی نے ان کی غیر موجودگی کی وضاحت کی کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یادگار فن تعمیر کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہاں اس شہر کی یادگار بات اس شہر کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔‘
اینٹوں کے بنے ہوئے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے جو شہر کے اونچے حصے کی جانب لے جاتا تھا، میں نے اپنے آپ کو شہر کے نچلے حصے میں پایا جو موئن جو دڑو کے 300 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے اور اس میں کسی زمانے میں شہر کے خوشحال محلے آباد ہوں گے۔
اس شہر کی کامیابی کا اصل راز اس شہر کی اعلیٰ معیار کی تنظیم تھا۔ درجنوں تنگ سڑکیں منصوبہ بند گلیوں کے جال میں 90 ڈگری کے زاویوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہیں۔ مقامی گھروں کے دروازے، بشمول غسل خانوں میں، دہلیز کا استعمال اس کے برعکس نہیں جو آپ کو آج بھی کسی گھر یا عمارت میں ملے گا۔
رضوی نے کہا کہ ’جب آپ ایک دہلیز دیکھتے ہیں، تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے سوچا ہے کہ اندر اور باہر ہونے کا کیا مطلب ہے۔‘
موئن جو دڑو کے گھاس والے علاقے میں قائم ایک چھوٹی سی عمارت ہے جس میں میوزیم ہے جسے دیکھنے کے بعد آپ کو اس کھنڈر شہر کے بارے میں مزید آگاہی ہوتی ہے۔ سینکڑوں آرائشی مہریں، جن میں اکثر ایک ہی جانور منقش ہوتا ہے، نیز مجسمے، زیورات، اوزار، کھلونے اور مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں کو اس جگہ سے بہت احتیاط کے ساتھ نکالا گیا ہے۔
شیشے کے شیلفوں کی قطاروں پر میں سجائے گئے، نوادرات کو اچھی طرح سے محفوظ کیا گیا تھا۔
نوادرات میں سے دو مجسمے تھے: ایک جواہرات پہنے ہوئے ایک نوجوان عورت اور دوسرا ایک اچھی طرح سے تیار آدمی جو اعلیٰ مرتبے کا معلوم ہوتا تھا۔
رضوی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اشرافیہ کے طبقے کا کوئی بڑا آدمی ہو گا، ہم نہیں جانتے کہ وہ پادری تھا یا بادشاہ۔ جب جسمانی آرائش اور جسمانی نگہداشت کی بات آتی ہے تو ہمیں تفصیل کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ اس سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ (رہائشی) اپنے آپ سے، اپنے جسموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے تھے۔ انھیں واضح طور پر ریاضی کی سمجھ تھی۔ واضح طور پر، جیومیٹری کی سمجھ تھی۔ واضح طور پر، فیشن کی سمجھ تھی۔‘
تاہم ایسی بڑی تفصیل جو اس قدیم شہر کے بایسوں کی زندگیوں اور اُن کے ادوار کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہو وہ تاحال ابھی بھی ایک راز ہے۔
اگرچہ قدیم تحریریں اکثر تہذیبوں کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہیں، لیکن موئن جو دڑو کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، جس کے باشندے سندھ وادی طرزِ تحریر کے نام سے پہچانے جانے والے سکرپٹ کو استعمال کرتے تھے۔ میرے گائیڈ سولنگی نے کہا کہ ’یہ ایک تصویری زبان تھی جس میں 400 سے زیادہ حروف تھے۔ اسے ابھی تک کوئی پڑھ نہیں سکا ہے۔‘
موئن جو دڑو کا انجام کیا ہوا یہ ایک اور معمہ ہے جو ابھی حل ہونا باقی ہے۔
مجموعی طور پر محققین کو یقین نہیں ہے کہ یہ شہر 1700 قبل مسیح کے آس پاس کیوں ختم ہو گیا یا اسے خالی کر دیا گیا، حالانکہ بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کے عوامل نے اس کی بربادی میں ایک کردار ادا کیا ہو گا۔ اس کے باوجود، رضوی نے وضاحت کی کہ موئن جو دڑو کا غائب ہونا کوئی فوری واقعہ نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’شہر خود اچانک خالی نہیں ہوا تھا۔ 1900 قبل مسیح کے آس پاس آپ دیکھتے ہیں کہ ایک تبدیلی ہوتی ہے، شہر میں رہنے والے لوگوں کے نشانات مادی صورت میں کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب چلے گئے ہیں، لیکن کچھ محلے ایسے ہیں جو آپ شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد کے ادوار میں آبادی کی تعداد پہلے کے ادوار کی طرح نہیں رہتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی شہر چھوڑنے کی رفتار سست ہے۔‘
کئی ہزار سال بعد اب اگست 2022 میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سپر سیلاب کے بعد یہ شہر ایک بار پھر خطرے سے دوچار ہے۔ ڈاکٹر اسما ابراہیم، ماہر آثار قدیمہ اور میوزیالوجسٹ جو ملک بھر میں تحفظ کے کام میں مصروف ہیں، نے تصدیق کی کہ موئن جو دڑو کو نقصان پہنچا ہے، اس کی سائٹ پر سیلاب اس سے کم تھا جو آثار قدیمہ کے ماہرین کو اصل میں خدشہ تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ موئن جو دڑو کو آئندہ کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ابراہیم نے اضافی پانی کو سائٹ سے ہٹانے کے لیے چینلز کے استعمال کی سفارش کی لیکن ساتھ ساتھ زور دیا کہ ’طویل مدتی حکمت عملی‘ کی ضرورت ہے۔
علاقے کے لیے ایک دیرپا منصوبہ نہ صرف آثار قدیمہ کو فائدہ دے گا بلکہ اس کے آس پاس رہنے والے سولنگی جیسے بہت سے مقامی لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ڈنڈ گاؤں میں سولنگی کے گھر سے بودھ مت کا گول گنبد صاف نظر آتا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ’میرے لیے موئن جو دڑو قدیم تہذیب کا خزانہ ہے۔ ہمیں اس کی آئندہ نسلوں کے لیے حفاظت کرنی چاہیے۔‘
اینٹوں کے بنے ہوئے راستوں پر چلتے چلتے میں سولنگی سے متفق ہو گیا۔ میں نے منظم گلیوں کے بارے میں سوچا اور ان اینٹوں کا زمین کی سطح سے نیچا حوض جسے ’عظیم حمام‘ کہا جاتا ہے کا بغور جائزہ بھی لیا۔ ایک وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا صفائی کا نظام جو آج پاکستان میں نظر آنے والے کچھ بنیادی ڈھانچے سے بھی کافی زیادہ بہتر ہے۔
جیسا کہ سولنگی نے کمال سے کہا ’عوام سے جمع کیا گیا ٹیکس عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا۔‘
اور کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ان کی سرمایہ کاری بارآور ہوئی۔ موئن جو دڑو ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور وہاں کے باسی اپنے وقت کے معیارات سے کہیں زیادہ بہتر معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے قابل تھے۔
کچھ گھنٹے بعد لاڑکانہ واپسی کے راستے میں ایک بوسیدہ آٹو رکشہ میں بیٹھا تو اس پر شکر ادا کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ہزاروں برسوں سے موئن جو دڑو مٹی اور ریت میں دفن تھا، بظاہر اندرون سندھ کے میدانی علاقوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا تھا۔
پھر بھی سولنگی جیسے سرشار گائیڈز اور ماہرین آثار قدیمہ کی پچھلی صدی کی انتھک کوششوں کی بدولت، قدیم دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایک کو ایک بار پھر دیکھا جا سکتا ہے۔ اور زیادہ کثرت سے آپ کو صاف ستھری، نالیوں کے ساتھ بنی ہوئی سڑکیں ملیں گی۔