بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم میں موجودہ مالی سال میں تسلسل سے کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور رواں سال اکتوبر کے مہینے میں گذشتہ سال کے اِسی مہینے کی نسبت لگ بھگ 16 فیصد کم رقوم بھیجی گئی ہیں۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2022 میں ستمبر 2022 کے مقابلے میں بھی نو فیصد کی کمی دیکھی گئی اور موجودہ مالی سال کے چار مہینوں کا موازنہ اگر گذشتہ مالی سال کے انھی مہینوں سے کیا جائے تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں ساڑھے آٹھ فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی۔
یاد رہے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پاکستان میں زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہے اور اس میں کمی ایک ایسے وقت میں دیکھی جا رہی ہے جب پاکستان زرمبادلہ کی قلت کا شکار ہے اور مرکزی بینک اور تجارتی بینکوں کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
مرکزی بینک کے پاس اس وقت آٹھ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جب کہ ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 13.7 ارب ڈالر ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کو بیرونی قرضے کی ادائیگی کی مد میں 95 کروڑ ڈالر ادا کرنے پڑے ہیں جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان میں ترسیلات زر میں کمی کا رجحان رواں سال اپریل کے مہینے کے بعد شروع ہوا تھا۔ اپریل کے مہینے میں 3.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کسی ایک مہینےمیں پاکستان میں آنے والی ریکارڈ ترسیلات زر تھیں تاہم اس کے بعد اُن میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی اور اکتوبر کے مہینے میں ملک میں صرف 2.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر آئیں۔
پاکستان میں کرنسی کے کاروبار کے وابستہ ماہرین کا دعویٰ ہے غیرملکی پیسے اب بھی بھیج رہے ہیں مگر وہ قانونی یا سرکاری چینل کے بجائے غیر رسمی چینل جیسا کہ حوالہ اور ہنڈی کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری چینل سے پاکستان پہنچنے والی رقوم میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ ترسیلات زر کی غیر سرکاری چینلز کے ذریعے آمد ملک کی معیشت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے کیونکہ ترسیلات زر کی مد میں آنے والے ڈالر پاکستان میں زرمبادلہ ذخائر میں اضافے اور ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ترسیلات زر کا ایک سال میں کیا رجحان رہا؟
پاکستان میں ایک سال میں ترسیلات زر کا رجحان دیکھا جائے تو گذشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں ڈھائی ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں اور اس سے اگلے چار مہینوں میں یہ ڈھائی ارب کے آس پاس ہی رہیں۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں ترسیلات زر میں اضافہ دیکھا گیا جب یہ رقوم 2.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور اپریل کے مہینے میں پہلی بار تین ارب ڈالر کی حد کراس کر کے 3.1 ارب ڈالر ہو گئیں۔
اپریل کے بعد ان میں کمی دیکھی گئی اور موجودہ مالی سال کے اگست کے مہینےمیں یہ 2.7 ارب ڈالر تک گر گئیں اس کے بعد ستمبر کے مہینے میں ان میں مزید کمی دیکھی گئی جب اکتوبر کے مہینے میں ترسیلات زر 2.2 ارب ڈالر تک گر گئیں۔ اپریل کےمہینے سے لے کر اکتوبر کے مہینے تک ترسیلات زر کا حجم نوے کروڑ کم ہوا ہے۔
حوالہ، ہنڈی کے ذریعے ترسیلات زر آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترسیلات زر میں کمی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں ڈالر کا سرکاری ریٹ اور گرے مارکیٹ میں ملنے والے ریٹ کا فرق ہے جس کی وجہ سے اب زیادہ تر پیسے حوالے اور ہنڈی سے آ رہے ہیں۔
سمیع اللہ طارق نے کہا سرکاری چینل کی بجائے دوسرے چینل زیادہ بہتر ریٹ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت سرکاری طور پر ڈالر کا ریٹ 221 روپے آفر ہو رہا ہے جب کہ دوسرے چینلوں سے یہی ریٹ 230 روپے سے بھی زیادہ کا مل رہا ہے۔
فارن کرنسی کے کاروبار سے وابستہ اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق بھی ڈالر کا ریٹ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت پشاور کی مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 240 روپے تک ہے جب کہ کراچی میں یہ 237 روپے تک ہے۔ ایک ڈالر پر 15 روپے تک کا فرق گرے مارکیٹ کو پیسے بھیجنے والوں کے لیے زیادہ پرکشش بناتا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو مرکزی بینک کے ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ غیر رسمی چینل سے زیادہ بہتر ریٹ ملنے کی وجہ سے ترسیلات زر ان طرف زیادہ گئی ہیں۔
ترسیلات زر میں کمی کی وجہ کیا عالمی معاشی حالات بھی ہیں؟
30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے مجموعی طور پر 31.2 ارب ڈالر پاکستان بھیجے گئے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ تھے تاہم موجودہ مالی سال میں ان میں کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔
پاک کویت انوسٹمنٹ کمپنی میں ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا کے معاشی حالات نے پاکستان میں بیرون ملک سے ترسیلات زر کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا کی بڑی معیشتوں کی جانب سے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری میں زیادہ نفع حاصل ہو رہا ہے، اس لیے ڈالر زیادہ تر ان ملکوں میں جا رہا ہے اور بیرون ملک پاکستانی بھی اپنی بچت ان ہی معیشتوں میں لگا رہے ہیں تاکہ زیادہ نفع کما سکیں۔
انھوں نے کہا اس کے ساتھ دنیا میں خراب معاشی صورتحال اور مہنگائی کے بڑھنے کی وجہ سے لوگوں کی بچت پر بھی منفی اثر ہوا اور بیرون ملک پاکستانی بھی اس سے شدید متاثر ہوئے اور اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے بعد ان کے پاس بہت کم بچت رہ جاتی ہے کہ وہ اسے پاکستان میں اپنے گھر والوں یا سرمایہ کاری کے لیے بھیجیں۔
مرکزی بینک کے ترجمان نے بی بی سی کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ دنیا بھر میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی بچت کم ہو رہی ہے اس لیے وہ کم پیسے بھیج رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں معاشی سست روی نے پاکستان میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر کو بھی متاثر کیا ہے۔