کالم

ناروے میں نواز شریف یاد آئے۔۔!

Share

اس شام ناروے میں ہونے والی کانفرس کا باقاعدہ آغا ز ہوا۔ سب سے پہلے میزبان فاونڈیشن کے ڈائریکٹر اسٹیج پر آئے۔ انہوں نے حاضرین کو خوش آمدید کہا۔ آزادی صحافت کی اہمیت اور فاونڈیشن کے کردار پر روشنی ڈالی۔ اور کچھ اس طرح کہ ایک لکھا ہوا پرچہ، اٹک اٹک کر حرف بہ حرف پڑھ ڈالا۔ اس کے بعد یونیسکو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر (گائے برگر) نے ڈائس اور مائیک سنبھالا۔ انہوں نے بھی کچھ لکھی اور کچھ زبانی (تجزیہ نما) تقریر کی۔ پرچوں سے دیکھ کر پڑھی جانے والی یہ تقا ریر سن کر میرا دھیان میاں نواز شریف کی طرف چلا گیا۔ صرف اس شام نہیں، کانفرنس کے اگلے دو روزبھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ یہ دنیا بھر سے آئے نامور جامعات کے پروفیسروں، صحافیوں اور دانشوروں کا اجتماع تھا۔ ان میں سے بیشتر نے اپنے پیش کردہ تحقیقی مقالے اور رپورٹیں کاغذ یا کمپیوٹر سے دیکھ کر پڑھے۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کولکھی ہوئی تقاریر پڑھتے دیکھ کر خیال مجھے یہ آتا رہا کہ لکھی ہوئی تقریر کرنے پر کس طرح برسوں سے ہم نواز شریف کا تمسخر اڑاتے پھرتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں لکھی ہوئی تقاریر پڑھنے کا رواج بھی ہے اور رجحان بھی۔ پاکستان سمیت دنیا کے نامور سیاستدان، سربراہان مملکت، سفارت کار، جج، جرنیل، پروفیسراور دانشور پرچہ سامنے رکھ کر حاضرین سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اس آدمی (نواز شریف) کا مگر پرچہ پکڑنے پر مذاق اڑایا جاتا رہا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کس طرح انکے مخالفین سوشل میڈیا پر یہ تاثر پھیلانے میں مصروف رہے (اور کسی حد تک کامیاب بھی) کہ نواز شریف ڈھنگ سے انگریزی کے چند جملے بولنے سے قاصر ہیں۔ انہیں انگریزی میں بات کرنے کیلئے پرچی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ باتیں سوچتے ہوئے مجھے میاں صاحب سے ہونے والی ایک ملاقات یاد آگئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شریف خاندان جبری جلاوطنی بھگتنے کے بعد وطن واپس آچکا تھا۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد انتخابات ہو چکے تھے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی، جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم تھی۔
مجھے یاد ہے جاتی امرا میں میاں نواز شریف کے ٹیلی ویژن انٹرویو سے فراغت کے بعد چائے کا اہتمام تھا۔ میاں صاحب بھی چائے میں شریک تھے اور ادھر ادھر کی گفتگو جاری تھی۔ میری ان سے یہ تیسری چوتھی ملاقات تھی۔ پوچھنے لگے کہ میڈیا میں آنے کے لئے آپ نے کونسی ڈگری لے رکھی ہے؟ میں نے اس وقت ایل۔ایل۔بی کر رکھا تھا۔ لاء کا لج کا نام سن کر میاں صاحب خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ ارے یہ تو میرا کالج ہے۔ پھر اپنے زمانہ طالب علمی سے متعلق کوئی قصہ سنانے لگے۔ اتنے میں انکا ایک گھریلو ملازم ہاتھ میں کارڈ لیس فون تھامے چلا آیا اور انکے کان کے قریب سرگوشی کی کہ ہالبروک کا فون ہے۔ رچرڈ ہالبروک اس وقت افغانستان اور پاکستان میں امریکی صدر باراک اوبامہ کے مشیر خصوصی مقررتھے۔ بر سبیل تذکرہ دنیا کے دو مختلف خطوں (ایشیا اور یورپ) میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ہونے کا اعزاز (اورریکارڈ) آج بھی صرف ہالبروک کے پاس ہے۔
اس وقت میرے علاوہ ایک صحافی بھی کمرے میں موجود تھے۔ میاں صاحب نے فون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور اپنی وضعداری کے عین مطابق کہنے (بلکہ پوچھنے) لگے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کال سن لوں؟ اجازت دینے کے سوا ہمارے پاس چارہ ہی کیا تھا۔ ہم نے سر ہلا دیا۔ رچرڈ ہالبروک نہایت اہم امریکی سفارت کار تھے۔ نواز شریف اور ہالبروک کا رابطہ ایک اہم معاملہ اور خبر تھی۔ میں بظاہر لاتعلق سی بیٹھی رہی مگر میری سماعتیں کلی طور پر میاں صاحب کی طرف مرکوز تھیں۔ تاہم میری دلچسپی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے ان دونوں اہم شخصیات کی گفتگو سے کوئی سروکار تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں ان دونوں کی گفتگو سے اپنے صحافتی ادارے کیلئے کوئی خبر کشید کرنا چاہتی تھی۔ میرے تجسس کا محور میاں صاحب کی انگریزی تھی۔ میرے پیش نظر وہ باتیں تھیں جو انکی انگریزی سے متعلق کہی جاتی تھیں۔ میں نے سوچا کہ دیکھتی ہوں کہ میا ں صاحب کس طرح ہالبروک سے بات کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اٹھ کر چلے جائیں اور مترجم (translator)کی مدد سے بات کریں۔

مزید پڑھئیے:

 ناروے میں چند دن (قسط 1)

 ناروے میں چند دن (قسط 2)

 ترک پروفیسر طیب اردگان کے ذکر پر کیوں ہنسنے لگے؟ (قسط 3)

میاں صاحب نے ہاتھ بڑھا کر رسیور تھاما اور کان سے لگا لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، انہوں نے ہیلو برادر، ہاو آر یو؟ (hello brother, how are you?)کہتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا اور اگلے دس بارہ منٹ تک بات کرتے رہے۔ وہی دھیما لہجہ اور ٹھہرا ہوا انداز۔ شہادت کی انگلی سے عادتا سر کھجاتے، اور دوران گفتگو مدھم قہقہے لگاتے ہوئے۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ اس دن مجھے ادراک ہوا کہ ان کی انگریزی سے متعلق جو تاثر دیا جاتا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ میڈیا کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں کسی کا تاثر ابھارتا اور بگاڑتا ہے، اس کا عملی تجربہ مجھے اس دن ہوا۔ اس قصے کے کچھ عرصہ بعد ایسا ہواکہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنی دستاویزی فلم کے لئے انکا انٹرویو کر کے فارغ ہوئی تھی کہ ایک غیر ملکی صحافی چلا آیا۔ مجھے ایک بار پھر کچھ دیر انکی انگریزی سننے کا موقع ملا۔ خیر یہ تو فقط ایک معمولی قصہ ہے۔ کتنے ہی افراد ایسے ہیں، جنکی شخصیت اور کردار میڈیا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ خیال مجھے یہ آتا ہے کہ میڈیا جسکا اصل وظیفہ تعلیم، تربیت اور تفریح ہے۔ اس نے تمسخر،تضحیک اور تذلیل کا فریضہ بھی بخوبی سنبھال رکھا ہے۔ سوشل میڈیا نے تو خیر ہر حد کو پار کر ڈالا ہے۔برسوں پیمرا سے منسلک رہنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہو ں کہ ہمارے بیشتر مسائل پیمرا، پریس کونسل آف پاکستان، پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ، اور صحافتی ضابطہ اخلاق کی مدد کے بغیر ہی حل ہو جائیں اگر ہم قرآن کی صرف ایک آیت پر عمل کر لیں۔ اللہ پاک سورت حجرات میں فرماتا ہے کہ اے ایمان والو۔ جب تمہارے پاس کوئی خبر آئے، تو تصدیق کر لیا کرو۔دقت یہ ہے کہ تصدیق، تحقیق، جانچ، پڑتال کا زمانہ لد چکا۔ سینئر صحافی بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ کوئی خبر جھوٹی ثابت ہو جاتی تومتعلقہ صحافی کئی کئی روز منہ چھپائے پھرتا تھا۔ آج یہ حال ہے کہ منصوبہ بندی کیساتھ جھوٹ گھڑااور پھیلایا جاتا ہے۔ غنیمت یہ ہے اب بھی بہت سے اچھے اور سچے صحافی موجود ہیں، جنہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ انہی صحافیوں نے شعبہ صحافت کی آبرو کو سنبھال رکھا ہے۔ افسوس کہ ہماری روز مرہ زندگی سے بھی تصدیق کا پہلو نکلتا جاتا ہے۔ گھروں، خاندانوں، دفاتر میں الزام تراشی اور کردار کشی معمول کے معاملات بن چکے ہیں۔سنی سنائی باتیں آگے پہنچائی جاتی ہیں۔ جبکہ پیارے نبی ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے پہنچا دے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں اس قبیل میں شامل ہونے سے بچائے رکھے جو دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے پر معمور ہے۔ آمین۔
بہرحال اس کانفرنس کا موضوع صحافتی اخلاقیات نہیں بلکہ” صحافیوں کا تحفظ” تھا۔ اس ضمن میں یونیسکو کی جو رپورٹ پیش کی گئی اسکا لب لباب یہ ہے کہ دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل اور انکے خلاف ہونے والے دیگر جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان جرائم میں ملوث افراد کو حاصل استثنا (impunity) کے واقعات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ چند برسوں میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ آن لائن دھمکیوں اور ہراسانی(harassment) کا رجحان بھی تیزی سے فروغ پا گیا ہے۔ پتہ یہ چلا کہ (2014-18) میں تقریبا 500 صحافی قتل ہوئے۔ یعنی ہر ہفتے میں دو صحافیوں نے اپنی جان گنوائی۔ سب سے ذیادہ صحافی (149) عرب ریاستوں میں قتل ہوئے، جبکہ سب سے کم (20) یورپ میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قتل ہونے والے صحافیوں کے کیسوں سے متعلق سب سے ذیادہ بے نیازی بھی عرب رہاستوں نے دکھائی۔ جبکہ سب سے ذیادہ تحرک کا مظاہرہ یورپی ممالک نے کیا۔ کچھ ماہ پہلے دنیا بھر کے ممالک کے پاسپورٹس کی درجہ بندی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کرمجھے انتہائی رنج دکھ ہوا تھاکہ پاکستانی پاسپورٹ صومالیہ کے ہم پلہ ہے۔ یونیسکو رپورٹ میں بھی ہم صومالیہ کے برابر کھڑے ہیں۔رپورٹ کیمطابق پاکستان اور صومالیہ میں (2014-18) کے دوران اکیس اکیس (21, 21) صحافی قتل ہوئے۔ پاکستان کے سرکاری ردعمل (response) کے مطابق اندھے قتل کے ان واقعات میں صرف ایک کیس کی عدالتی پیروی (judicial follow-up) ہو سکی۔ باقی بیس صحافیوں کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ میرے پاس مگراس یونیسکو رپورٹ سے کہیں تازہ اعداد و شمار موجود تھے۔ اکتوبر 2019 کے آخر میں، فریڈم نیٹ ورک پاکستان نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں (اکتوبر 2019 تک) پاکستان میں تینتیس(33) صحافی قتل ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک قتل کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ صرف ایک ملزم کو سزا ہوئی اور وہ بھی اپیل میں بری ہو گیا۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا سے سو فیصد بریت اور استثنا (impunity) حاصل ہے۔ (جاری ہے)۔