اپنے دور اقتدار میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک اطالوی صحافی اوریانہ فلاچی کو انٹرویو دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے: ’ٹکا خان نے (مشرقی پاکستان میں) وہی کیا جس کا انھیں حکم ملا تھا، چاہے وہ (دل میں) اس حکم کی تائید نہ کرتے ہوں۔ اور میں نے انھیں اس لیے چنا ہے کہ مجھے یہ پتہ ہے کہ وہ میرے احکامات بھی اسی ڈسپلن کے ساتھ مانیں گے۔‘
پانچ دہائیوں بعد گذشتہ برس بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: ’فوج پاکستان میں ایک سٹیک ہولڈر ہے، کوئی مانے یا نہ مانے۔ جیسے باقی ممالک میں، امریکہ میں، اور دیگر ممالک میں، یہاں بھی فوج ایک سٹیک ہولڈر ہے۔‘
یہ دونوں بیانات پاکستان میں کم و بیش ہر سیاستدان کی اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو وہ فوجی قیادت اور ملکی سیاست میں اُن کے مبینہ ’اثر و رسوخ‘ کے بارے میں رکھتے ہیں۔
اس وقت جب جمہوریت نئی نئی قائم ہوئی تھی اور آج جب یہ کئی تلخ تجربات سے گزر چکی ہے، ایک سوال نہیں بدلا یعنی نئے آرمی چیف کا سیاسی جھکاؤ کس طرف ہو گا۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں سروسز چیفس یعنی فوجی سربراہان کی تعیناتی ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ پاکستان میں مسلح افواج کے سربراہان گریڈ 22 کے افسران ہوتے ہیں اور ان جیسے درجنوں دیگر افسران مختلف اداروں میں تعینات ہوتے رہتے ہیں مگر اُن کی تعیناتی خبروں میں کم ہی جگہ بناتی ہے۔
پاکستان میں بھی فضائی اور بحری افواج کے سربراہان کی تعیناتی کا علم ایک پریس ریلیز سے ہوتا ہے مگر بری فوج کے سربراہ کا معاملہ خاصا مختلف ہے۔ یہاں تک کہ نیا آرمی چیف تعینات ہوتے ہی ’اگلا سربراہ کون ہو گا‘ کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔
ایک طرف صحافی اس سوال کے جواب کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں کہ آئندہ فوجی سربراہ کے لیے کون سینیئر ہو گا، کس نے کس تاریخ کو کون سی کمان سنبھالی اور کس نے کب، کتنے بجے ریٹائرمنٹ کے باعث فوج کی سربراہی کی دوڑ سے باہر ہو جانا ہے تو دوسری طرف سیاستدان یہ خبریں جمع کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کون سا لیفٹیننٹ جنرل کس سیاستدان کا رشتہ دار ہے، یا کس سیاسی خاندان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔
افواہوں کا ایک بازار گرم ہوتا ہے اور یہ افواہیں بعض اوقات ایسے فیصلے بھی کراتی ہیں جن کے بارے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں نے جنرل مشرف کو تعینات کرنے کا فیصلہ جلد بازی میں کیا تھا، مجھے غلط مشورہ دیا گیا تھا۔‘
شجاع نواز اپنی کتاب ’کراسڈ سورڈز‘ میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف کا اشارہ ان افواہوں کی جانب تھا جو اس وقت لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان اور چند دیگر افسران کے بارے میں زیر گردش تھیں کہ وہ سیاسی جھکاؤ رکھتے ہیں۔
فوج نے ہر موقع پر ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ان کی قیادت سیاست میں مداخلت کرتی ہے، یا ان کے کسی بھی سیاستدان چاہے وہ حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے، کے ساتھ اچھے یا بُرے تعلقات ہیں۔
مگر حالیہ چند مہینوں میں الزامات، جوابات اور بیانات کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ فوجی ترجمان کئی بار دہرا چکے ہیں کہ وہ اب ’نیوٹرل‘ ہیں اور سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔
لیکن سیاست کے داؤ پیچ سمجھنے والے اب بھی فوجی قیادت کی حمایت کو اہم سمجھتے ہیں اور انھیں سیاست سے الگ نہیں کر پاتے۔
جیسا کہ سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا کہتے ہیں کہ ’خود کو غیر سیاسی کہنے والی فوج غیر سیاسی ہو کر بھی سیاسی ہی ہے‘ تو کیا موجودہ سیاسی بحران اس وقت ختم ہو جائے گا جب ایک نئے آرمی چیف اپنا عہدہ سنبھالیں گے؟
اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے ایک نظر موجودہ آرمی چیف اور سیاسی جماعتوں کے نئی تعیناتی سے متعلق موقف پر بھی ڈال لیتے ہیں۔
گذشتہ دہائیوں میں فوج پر بڑے سیاسی رہنماؤں کو سائیڈ لائن کرنے اور انتخابات میں مداخلت جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان حکومت میں آئے تو اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں، خصوصاً مسلم لیگ ن، نے بھی یہی الزامات دہرائے تھے۔
اسی طرح آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ کی تعیناتی کے وقت سابق وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلافات منظر عام پر آئے تھے۔
اس معاملے کے چند ماہ بعد ہی وہ اپوزیشن جماعتیں ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد لائیں جو کچھ عرصہ قبل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ عمران خان کو اس تحریک کے نتیجے میں وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے۔
آج جب اس عہدے پر تعیناتی کا وقت آیا تو پی ڈی ایم اتحاد حکومت میں ہے جس میں مسلم لیگ ن کو برتری حاصل ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر ایک رسہ کشی جاری ہے جس نے ملک میں ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔
یہ تعیناتی اس قدر اہم ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما سے جب میں نے یہ تحریک لانے کی وجہ دریافت کی تو ان کا جواب کچھ یوں تھا: ’اس وقت پی ڈی ایم کی کوئی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ وہ شخص آرمی چیف بنے جس کو عمران خان تعینات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں ہم اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔‘
یہ اس وقت کی بات ہے جب اس تعیناتی میں کئی ماہ باقی تھے۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی 2016 میں ہوئی۔ 2019 میں عمران خان نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی تو اس وقت بھی یہ معاملہ خاصی بحث کا باعث بنا تھا۔ مگر جو بحران آج ہے، اس کی ماضی قریب میں نظیر نہیں ملتی۔
تو کیا تعیناتی کے بعد ملک میں سیاسی بحران ختم ہو جائے گا؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے متعدد سیاسی مبصرین اور سابق فوجی افسران سے ان کی رائے طلب کی۔
سابق فوجی جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ ’اس وقت کسی کا نام مریم نواز نے لیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں، کسی کا تعلق آصف علی زرداری سے جوڑا جا رہا ہے، کسی کا مسلم لیگ ن سے۔ تو ایسی صورت میں بہترین حل یہی ہے کہ ایک غیر متنازع افسر کو آرمی چیف تعینات کیا جائے۔
’یہ بحران مکمل طور پر تب بھی ختم نہیں ہو گا مگر ایک غیر متنازع شخص کے لیے یہ نسبتا آسان ضرور ہو جائے گا۔‘
ان کے خیال میں ’اس وقت یہ اہم ہے کہ فوجی قیادت سے متعلق عوام میں کیا رائے پائی جاتی ہے، ’ایک غیرمتنازع نئے آرمی چیف کے لیے بھی بحران کا خاتمہ تو مشکل ہو گا مگر کم از کم اس کی ذات تنازعات سے پاک ہو گی اور پھر وہ آئندہ چند ماہ میں خود کو اور ادارے کو سیاست سے مکمل طور پر دور ثابت کرے گا۔ اس صورت میں ہی سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گا۔ لیکن اس وقت تو ایسا مشکل نظر آ رہا ہے۔‘
اس سوال پر کہ عمران خان جو اس وقت ایک لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں اور حال ہی میں ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے ہیں، اس تعیناتی کو کیسے قبول کریں گے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ ’عمران خان میرٹ کو سمجھتے ہیں اور میرٹ پر تعیناتی پر امکان ہے تو وہ اعتراض نہیں کریں گے۔ دوسری طرف نئے آرمی چیف کو بھی جانتے بوجھتے کوشش کرنا پڑے گی کہ واقعی فوج سیاست سے دور ہے اور کوئی ہمارا فیورٹ نہیں ہے۔‘
’جس نے ڈور الجھائی وہی سلجھائے گا‘
سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا فوج کو ماضی کے مقابلے میں آج کئی گنا زیادہ متنازع سمجھتے ہیں۔ ان کے اس خیال کی وجہ وہ بیانیہ ہے جو پاکستان کی مڈل کلاس میں عمران خان کی وجہ سے ’مقبول‘ ہو گیا ہے۔
اسی بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عامر ضیا ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ایک فوجی کے ذریعے ختم ہوئی تو عوام مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، پانامہ لیکس کے بعد جب نواز شریف وزارت عظمی سے نااہل ہوئے تب بھی کوئی بڑا عوامی ردعمل نہیں آیا تھا۔ مگر آج جو ردعمل اور فوج مخالف تاثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس طبقے سے ہے جو کچھ عرصہ قبل فوج کا سب سے بڑا حامی تھا یعنی مڈل کلاس اور لوئرمڈل کلاس شہری طبقہ۔‘
’یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور اب اس خلا کو پر کرنے اور دوریاں ختم کرنے کے لیے فوجی قیادت کو ہی کچھ اقدامات کرنا پڑیں گے۔‘
عامر ضیا کہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کم از کم سیاست کے معاملے میں اپنے پیش رو کی پالیسیوں کو شاید فالو نہ کریں۔ وہ عوامی سطح پر فوج مخالف ردعمل کی ایک وجہ خود فوجی قیادت کا ہی اینٹی کرپشن بیانیہ اور پھر اس سے دور ہٹنا سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے فوجی قیادت ہی نکال سکتی ہے۔
’اس وقت پاکستان کے سیاسی بحران نے ملک کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے، اور اس کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں یہ سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں، جو بھی نیا فوجی سربراہ ہو گا ان ہی کو کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ کیونکہ جس نے ڈور الجھائی ہے، وہی سلجھائے گا۔‘
عامر ضیا کے مطابق نئے آرمی چیف کو سب سے بڑا چیلنج یہ بھی ہو گا کہ انھیں اپنی ذات کو عوام کے سامنے غیر متنازع اور غیر سیاسی ثابت کرنا پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بات عمران خان اور شہباز شریف کو سمجھنی چاہیے کہ فوجی سربراہ کسی کا ’اپنا بندہ‘ نہیں ہوتا۔ وہ فوج اور وہ فوج اور ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو بھی نیا آرمی چیف آئے گا وہ اس احساس کے ساتھ آئے گا کہ ان کے بارے میں یہ رائے ہو سکتی ہے کہ وہ کسی جماعت یا سیاسی آئیڈیالوجی کے حامی ہیں اور اسی وجہ سے انھیں یہ عہدہ ملا ہے۔ اس لیے نیا آرمی چیف سب سے پہلے یہی داغ دھونے کی کوشش کرے گا کہ وہ کسی کی حمایت سے آیا ہے۔‘
لیکن انھیں بھی سیاسی بحران کا خاتمہ ایک مشکل مرحلہ نظر آتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امید ہے کہ نیا آرمی چیف معاملات کو درست کرے گا اور مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ پیار محبت سے یا چھڑی دکھا کر وہ ان سیاسی جماعتوں سے کسی ایسے حل کی طرف جائیں گے کہ کچھ ماہ پہلے الیکشن ہو جائیں اور دونوں گروپس کے لیے کون ون ون سچوئیشن پیدا کرے جیسا کہ عمران خان کےالیکشن اور دیگر جماعتیں پہلے ہی کرپشن کیسز ختم کرا چکی ہیں۔‘
’لیکن اگر یہ بحران اگلے سال اگست تک جاتا ہے تو نئے فوجی سربراہ بھی خاصے متنازع ہو چکے ہوں گے۔ تو یہ ملک کس مصیبت میں کھڑا ہو گا۔ اور معیشت کا جو حال ہے وہ کئی درجے بدتر ہو چکا ہو گا۔‘
’مسئلہ تعیناتی نہیں طاقت کی جنگ ہے‘
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کی نظر میں سیاسی بحران کی جڑ آرمی چیف کی تعیناتی نہیں بلکہ طاقت کی جنگ کی مثلث ہے جس کے تین کردار ہیں۔
’اب ایسا لگتا ہے کہ یہ طاقت کی جنگ ہے جس میں ایک نام شہباز شریف، دوسرا عمران خان اور تیسرا نام جنرل قمر باجوہ کا آتا ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ سب آرمی چیف کی تعیناتی کی وجہ سے ہے مگر میرے خیال میں ایسا نہیں، یہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ایسی صورتحال میں میرا مشورہ تو یہی ہو گا کہ اس تعیناتی کا اعلان جلد از جلد کر دیا جائے تاکہ ایک مسئلہ تو ختم ہو۔‘
ان کی اسی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلیم صافی بھی سمجھتے ہیں ’سیاسی میدان میں جاری ہلچل اور عمران خان کی سرگرمیاں دراصل نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے جڑی ہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ جس قدر جلد اور میرٹ پر ہو جائے، اتنا ہی جلدی یہ سیاسی گرد و غبار بیٹھ جائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے کس کو کیا فائدہ ہو گا، اس کا انھیں علم نہیں مگر ’یہ فائدہ ہو گا کہ آج کل جو بے یقینی پھیلی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور دوسرا پاکستانی سیاست کا رخ متعین ہو جائے گا۔ سیاستدان اپنے مسائل پر بات کریں گے، اور فوجی سربراہ اپنا کام کریں گے۔‘
ماضی میں بھی حکومتی جماعتیں یہ سمجھتی رہی ہیں کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہوں گے تو یہی ان کے حکومت میں رہنے کی گارنٹی ہے جبکہ اپوزیشن کی جماعتوں کا یہ خیال رہا کہ آرمی چیف ان کی مرضی کا ہوا تو الیکشن میں کامیابی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ لیکن دونوں ہی ان تمام تجربات سے گزر چکے ہیں۔
رواں برس تحریک عدم اعتماد سے پہلے میں نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی احسن اقبال سے سوال کیا تھا کہ کیا یہ تحریک عدم اعتماد اس لیے لائی جا رہی ہے کہ نیا آرمی چیف آپ اپنی مرضی سے تعینات کر سکیں؟ تو انھوں نے کچھ ان الفاظ میں جواب دیا تھا:
’اپنا بندہ کوئی نہیں ہوتا۔ ہم تو یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ چکے ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو