ایک اخباری خبر کے مطابق میاں شہباز شریف کو تیسری بار کورونا ہو گیا ہے، یہ ہونا ہی تھا جب ایک شخص رات دن دیوانہ وار کام کرے آرام کا وقت بھی نہ ملے سب کے ساتھ کھلے چہرے سے ملتا ہو تو کورونا کا تعلق کسی اچھے خاندان سے نہیں ہے کہ وہ کسی اچھے انسان کی قدر کرتے ہوئے اسے معاف کر دے۔ میں تو حیران ہوں کہ شہباز صاحب کورونا کےپہلے اٹیک کے بعد اتنی جلدی دوبارہ سرگرم عمل کیسے ہو گئے کہ مجھے سال پہلے یہ موذی مرض ہوا تھا اور ابھی تک میری توانائیاں واپس نہیں آئیں دوسری طرف شہباز صاحب ہیں دوسری دفعہ اور اب تیسری دفعہ اس موذی سے متھا لگا بیٹھے ہیں۔ ان کے قریب جو لوگ ہیں وہ انہیں سمجھائیں کہ آپ مکمل آرام کریں امور سلطنت چلانے کیلئے ڈنڈبیٹھکیں نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیڈر کی رہنمائی ہی کافی ہو گی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری کا حلف اٹھانے کے موقع پر دوسرےکالم نگاروں کے ساتھ ان سے ملاقات کا موقع ملا تھا اس کے بعد سے وہ ہیں اور ان کی نہ ختم ہونے والی مصروفیات ہیں لہٰذا وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے اور اس کے بعد ان سے ملاقات کے بہت مواقع میسر آئے وہ ایک انتھک شخصیت کے مالک ہیں آرام ان کے مقدر میں ہے مگر وہ آرام پر کام کو ترجیح دیتے ہیں شہباز صاحب کبھی کبھی مجھ اکیلے کو کھانے پر بلا لیتے تھے کھانا تو خیر کیا کھانا ہوتا ہے گپ شپ بہت مزے کی ہوتی تھی جو لوگ انہیں قریب سے نہیں جانتے وہ انہیں بہت سخت گیر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ شاید ان کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آتی مگر ان کے قریبی حلقے جانتے ہیں کہ وہ بہت نرم دل بھی ہیں اور نہایت زندہ دل بھی !دوستوں کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہیں لطیفہ گوئی میں بھی کسی سے کم نہیں ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اللہ کا دیا سب کچھ ہونے کے باوجود فضول خرچ نہیں ہیں میرے استاد سید وقار عظیم اس رویے کے حامل شخص کو کفایت شعار کہنے کی بجائے ’’جزرس‘‘ کہا کرتے تھے خصوصاً ڈپٹی نذیر احمد کو پڑھاتے وقت ان کی کنجوسی کو بھی ’’جزرس‘‘ کا نام دیتے تھے میں نے شہباز صاحب کا بیڈروم دیکھا ہے جو لوگ بھی میرا یہ کالم پڑھ رہے ہیں وہ یقین کریں ان کے بیڈ روم میں شہباز صاحب کی آرام گاہ سے زیادہ سہولتیں موجود ہوں گی۔
میں یہ بیان درمیان ہی میں چھوڑ رہا ہوں کہ مجھے پورے ایک ہفتے کی داستان سنانی ہے جو ان کی جلاوطنی کے دوران میں نے ان کے جدہ والے گھر میں گزاری میرا کمرہ شہباز صاحب کے ساتھ والے کمرے کے برابر تھا وہ علی الصبح چائے کا پیالہ ہاتھ میں لئے میرے کمرے میں چلے آتے میں یہ بات کبھی نہیں بھول سکتا کہ انہیں اپنی جلاوطنی کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا اس بات کا کہ جو ترقیاتی منصوبے انہوں نے شروع کئے ہوئے تھے ان کا پرسان حال کوئی نہیں تھا۔وہ ملکی حالات پر سخت کڑھتے تھے آپ یقین کریں وطن کے لئے اتنی تڑپ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے مجھے جدہ ایئر پورٹ پر وہ خود ریسیو کرنے آئے تھے، رستے میں ملکی حالات کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے رہے جدہ میں ان کے ہاں رہائش کے دوران مجھے اس خاندان کی اعلیٰ روایات کے مشاہدے کا موقع بھی ملا ۔ کھانا فرشی دستر خوان پر کھایا جاتا تھا میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اپنے تمام اہل وعیال کے ساتھ دسترخوان کے گرد بیٹھے ہوتے اور مرحوم و مغفور میاں محمد شریف اور ان کی مرحومہ اہلیہ درمیان میں کرسیوں پر تشریف فرما ہوتیں۔جبکہ عباس شریف اپنے والدین کو کسی ملازم کی بجائے خود سرو کرنے کیلئے ان کے پہلو میں کھڑے ہوتے۔ درویش صفت عباس شریف کے حوالے سے ایک مزے کی بات یاد آئی موصوف نے بلیاں بہت پالی ہوئی تھیں میں نے ایک دن عباس صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اتنی بلیاں کیوں پالی ہوئی ہیں بولے ان بلیوں ہی کی وجہ سے توہمیں بلینئر (BILLIONAIRE) کہا جاتا ہے۔
شہباز شریف اپنے والدین کے علاوہ اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کا اتنا احترام کرتے تھے کہ میں نے کبھی ان کے سامنے ان کی اونچی آواز نہیں سنی۔دونوں بھائی با جماعت نماز ادا کرتے تھے اور عصر کی نماز کے بعد نواز شریف کے مداحین ایک بڑی میز کے گرد بیٹھ جاتے اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ایک انتہائی اعلیٰ درجے کا دانشور اور میرا دوست رئوف طاہر ان دنوں سعودیہ میں مقیم تھا کٹر پاکستانی اور شریف برادران سے ان کی پاکستانی محبت کی بنا پر ان سے بے حد پیار کرنے والا …یہ نشست بہت باکمال ہوتی تھی شہباز شریف اس نشست میں شامل ہونے کی بجائے کمپیوٹر پر کام میں مشغول رہتے ۔میں شہباز شریف کی اس محبت کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ وہ میرے مختلف ٹیسٹ کرانے کیلئے خود ہسپتال لیکر گئے ایکسرے بھی ہونا تھا ایم آرآئی بھی اور دوسرے الا بلاقسم کے ٹیسٹ بھی، مجھے سخت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ شہباز صاحب باہر اسٹول پر بیٹھے انتظار کرتے رہے ایک ٹیسٹ سے دوسرے ٹیسٹ کیلئے کسی دوسرے کمرے میں جانے کے بعد وہ اس کمرے کے سامنے والے اسٹول پر جا بیٹھتے میں ان کی اس محبت کا قرض کبھی ادا نہیں کر سکتا۔
پھر ایک وقت آیا کہ شہباز صاحب خصوصی اجازت کے تحت علاج کیلئے امریکہ چلے گئے اور حسن اتفاق سے وہاں بھی میری ان سے ملاقات ہوئی وہ ایک اسٹوڈیو میں مقیم تھے اسٹوڈیو ایک کمرے کی رہائش گاہ ہوتی ہے جس میں بیڈ روم کے ساتھ باقاعدہ کچن بھی ہوتا ہے، شہباز صاحب نے میرے لئے خود چائے بنائی خالد شاہین بٹ نے اس زمانے میں اپنی شدید علالت کے باوجود شہباز صاحب کی جو خدمت کی اس کی کوئی اور مثال کم از کم میری نظروں میں نہیں ۔کافی دیر پاکستان کے حالات پر تشویش بھری گفتگو کے بعد میں نے ان سے اجازت چاہی تو کہنے لگے آپ یہاں مشاعرے میں آئے ہیں مشاعرے والوں نے’’ مفتا‘‘تو نہیں لگایا میں نے ہنستے ہوئے کہا میں اس دور سے گزر چکا ہوں اب منہ مانگے پیسے وصول کرتا ہوں کہنے لگے میں آپ کو تھوڑے سے پیسے دیتا ہوں میری طرف سے بچوں کیلئے کچھ لیتے جائیں میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا جتنے پیسے میرے پاس تھے اس سے ان کے گفٹ لے لئے ہیں آپ بے فکر رہیں پھر وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آئے اور یہی اس خاندان کی روایت ہے ۔جدہ میں میاں محمد شریف مرحوم اور میاں نواز شریف کی محبتوں کی کہانی مجھ پر ادھار ہے میرا آج کا مکمل طور پر ادھورا اور تشنہ کالم صرف شہباز صاحب کیلئے ہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں کورونا سے جلد از جلد نجات دلائے اور وہ دوبارہ پاکستان کی خدمت کیلئے چاق وچوبند ہو جائیں اور ہاں جو لوگ ان دو بھائیوں کے درمیان افتراق کی خبریں پھیلاتے ہیں یا اس کی خواہش رکھتے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے شہباز شریف اور نواز شریف یک جان دو قالب ہیں ان میں دراڑ کی خواہش رکھنے والوں کو ہمیشہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ جو شخص اپنے بڑے بھائی کی کوسٹ پر تین بار وزارت عظمیٰ کی پیشکش کو ٹھکرا دے آپ اس سےتوقع رکھتے ہیں کہ وہ بھائی کے متوازی پالیسیاں بنائے گا؟