منتخب تحریریں

سب کے لیے قابل قبول فارمولے میں دشواریاں 

Share

کالم کے ابتدائیہ ہی میں اعتراف کرنے کو مجبو ر محسوس کررہا ہوں کہ کسی صحافی کو دیانت داری سے یہ حقیقت ہرگز بیان نہیں کرنا چاہیے کہ اسے حتمی فیصلہ سازوں تک کماحقہ رسائی میسر نہیں۔ کھلے دل سے تسلیم ہوئی ایسی نارسائی آپ کی وقعت گرادیتی ہے۔ غیر تو پہلے ہی آپ کو ”لفافہ“ وغیرہ ٹھہراچکے ۔قریب ترین دوست بھی مگر رحم کھانے سے اکتانے کے بعد آپ کا تمسخر اڑانا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان ”صحافیوں“ سے روابط بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں وہ ”باخبر“ تصور کرتے ہیں۔ 

گزشتہ چند دنوں سے ہمارے ہاں کسی ”صحافی“ کے”باخبر“ہونے کا معیار یہ سوال بن چکا ہے کہ اسے ”تعیناتی“ کے بارے میں کتناعلم ہے۔مجھ بے وقوف سے یہ حماقت سرزد ہوگئی کہ مخلصانہ عاجزی سے بیان کرنا شروع کردیا کہ اس ضمن میں مجھے ککھ خبر نہیں۔ ”وہ“ جو سوچ رہے ہوتے ہیں اسے جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اگر آپ اسلام آبا د کلب کے ممبر نہیں تو تگڑے لوگوں کی مہربانی سے وہاں کم از کم ”ہائی ٹی“ کے لمحات میں موجود ہوں۔ اس کے علاوہ گالف اور پولو کلب بھی ہیں۔”دو ٹکے کے رپورٹروں“ کے لئے ایسی اشرافیائی کلبوں میں گھسنے کی گنجائش موجود نہیں۔

”ان“تک رسائی اگر میسر نہ ہو تو موجودہ حکومت کے چند تگڑے لوگوں سے اگر تنہائی میں نہیں تو واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے مسلسل رابطہ ضروری ہے۔اس کے علاوہ دنیا میں ایک شہر لندن بھی ہے۔ وہاں گزشتہ تین برسوں سے سابق وزیر اعظم نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی کے دن بتارہے ہیں۔ان کی دختر مریم نواز صاحبہ بھی اب ان کے پاس تشریف لے جاچکی ہیں۔

نواز شریف صاحب کے ساتھ تنہائی میں گھنٹوں گزارنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے موصوف کے ذہن کو جان لیا ہے تو وہ میری دانست میں فقط غلط بیانی پر مبنی بڑھک لگائے گا۔ میاں صاحب یقینا بہت وضع دار اور خوش مزاج شخص ہیں۔ اہم ترین ”خبر“ کی بابت مگر ان کی رائے جاننے کی کوشش کریں تو یہ سوال اٹھاتے ہوئے ”فیصلہ“ آپ کے ”سپرد“ کردیتے ہیں کہ ”کیا ہونا چاہیے؟“ شہباز شریف کے بھی چند پسندیدہ صحافی ہیں۔ ”خبر“لیکن وہ ان کو دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ ”تعیناتی“کے حوالے سے مسلم لیگ (نون) نے جو ذہن بنارکھا ہے اس کا علم میں مصر ہوں صرف نواز شریف اور ان کے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے کے قابل چند افراد تک محدود ہے۔ نظر بظاہر ان میں سے ایک دو افراد ہمارے کچھ نامور صحافیوں کے بے تکلف دوست بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ ”دوست“ بھی تاہم ”ٹیوے“ ہی لگاسکتے ہیں۔قیافہ شناسی اپنی جگہ ایک اہم صلاحیت ہے۔ وہ مگر ”خبر“ کا واحد منبع ہو نہیں سکتی۔

مجھ سے حماقت مگر یہ سرزد ہونا شروع ہوگئی کہ نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے ”تعیناتی“ کے حوالے سے ابھرے یاوہ گوئی کے شوروغوغا میں حصہ لینے سے گریز کیا۔بڑے نام والے جن ”صحافیوں“ نے اس تناظر میں ”اندر کی بات“ سناکر کئی دنوں سے ہمیں مسحورکر رکھا ہے دھڑلے سے لکھی اور سنائی کہانیوں کے حوالے سے اب درست ثابت نہیں ہورہے۔ ان کے وسیلے سے ہمیں ”خبر“ یہ ملی تھی کہ رواں مہینے کی اٹھارہ تاریخ کو وزارت دفاع سے تعیناتی کے اہل امیدواروں کی فہرست پر مبنی ”سمری“ وزیر اعظم کے دفتر کو موصول ہوجائے گی۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے ایک جید ساتھی نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ 20اکتوبر تک تعیناتی کا مسئلہ بخیروخوبی حل ہوجائے گا۔

میں یہ کالم 20نومبر کی صبح اٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ19نومبر کی رات ایک بجے تک مطلوبہ سمری تیار ہی نہیں ہوئی تھی۔امید اب یہ دلائی جارہی ہے کہ وہ پیر 21نومبر کی شام تک تیار ہوجائے گی۔وزیر عظم اس میں سے اپنی پسند کا تعین کرنے میں ایک یا دو دن لیں گے اور یوں ”بدھ“کے دن ”کم سدھ“یعنی فیصلہ ہوجائے گا۔

فیصلہ سازی کے عمل کی ”تاریخیں“ فراہم کرنے کے علاوہ ہمارے چند معتبر صحافیوں نے اپنی اپنی ترجیح کے نام بھی بیان کردئیے تھے۔ اپنے ساتھیوں کا تمسخراڑانے کے بجائے میں بہت احترام سے یہ التجا کرنا شروع ہوگیا کہ وزیر اعظم صاحب کو 18تاریخ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔وہ جلد از جلد وزارت دفاع کو سمری بھیجنے کا حکم صادر فرمائیں اور اسے وصول کرنے کے بعد اپنے فیصلے کا اعلان کردیں۔ تعیناتی کے حوالے سے اپنائی تاخیر وگرنہ کئی الجھنوں کا باعث ہوگی۔ یہ الجھنیں ہمارے ہاں بے ثباتی کے ماحول کو مزید گھمبیر ہوتا دکھائیں گی۔ بے ثباتی کے تاثر کی بدولت چند ٹھوس نتائج ہم نے عملی صورت میں دیکھ بھی لئے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا21نومبر کے لئے طے ہوا دورہ ملتوی کردیا۔عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کی ٹیم بھی پاکستان نہیں آئی ہے۔ اس کے ہمارے ہاںآنے کے بعد ہی پاکستان کو500ملین ڈالر کی قسط ادا کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہونے کے لئے فرانس کے صدر نے اپنے ملک میں عالمی امدادی اداروں کا اجلاس بھی اس ماہ کے اواخر میں بلارکھا تھا۔وہ بھی فی الحال مقررہ وقت پر منعقد نہیںہورہا۔

یہ حقیقت واضح انداز میں نمایاں ہورہی ہے کہ تعیناتی کے حوالے سے ”سب کے لئے قابل قبول“ دکھتا فارمولا طے کرنے میں دشواریاں نمودار ہوچکی ہیں ۔ وزیر اعظم کی مصر سے ”اچانک“ لندن روانگی بھی اس ضمن میں کارگر ثابت نہیںہوئی۔جو ”تاخیر“ دن کی روشنی کی طرح نظر آرہی ہے وہ عمران خان صاحب کو یہ ثابت کرنے میں ٹھوس مدد فراہم کررہی ہے کہ وہ ”بھگوڑے اور مفرور“ کو تعیناتی کے ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے نہیں دیں گے۔نظر بظاہر انہوں نے اپنے جانثاروں کے ہجوم کے ساتھ راولپنڈی تشریف لانا مزید ایک ہفتے تک مو¿خر کردیا ہے۔ 26نومبر اب نئی تاریخ طے ہوئی ہے۔ یہ تاریخ طے کرنے کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے اس کی بابت غور کرنے کے بجائے یہ باور کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ خان صاحب کو کسی نہ کسی صورت رام کرکے ذرا ”ٹھنڈا“ کردیا گیا ہے۔ تاثر یہ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی صدر عارف علوی سے جو ملاقات ہوئی اس کے اطمینان بخش نتائج برآمد ہوں گے۔ مذکورہ ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی زبان سے ادا ہوئے کلمات مگر کچھ اور پیغام دیتے سنائی دئے۔تعیناتی کے ضمن میں قصہ مختصر وزیر اعظم کا ”صوابدیدی اختیار“ میری ناقص رائے میں اب محض آئین کی کتاب میں رقم ہوا ہی نظر آئے گا۔ جسے آپ پڑھ سکتے ہیں مگر قابل عمل نہیں بناسکتے۔اللہ اللہ خیر سلا۔