صحتہفتہ بھر کی مقبول ترین

کورونا کے بعد کینسر کی تشخیص سست روی کا شکار

Share

ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا میں 2019 کے آخر میں کورونا کے پھیلنے کے بعد مختلف طرح کے کینسر کی تشخیص یا اس کے ٹیسٹس سستی روی کا شکار ہوگئے، جس سے موذی مرض مزید سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جاما انکالوجی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق سال 2020 میں کورونا کی تشخیص یا اس کے ٹیسٹس میں تقریبا 7 فیصد تک کمی ہوئی جب کہ 2021 میں اس کی تشخیص دگنی کم ہوگئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کورونا کے پھیلنے کے بعد بریسٹ کینسر کی تشخیص یا اس کے ٹیسٹس میں 40 فیصد، سروائیکل کینسر یا رحم مادر کے کینسر میں 36 فیصد جب کہ بڑی آنت کے کینسر کی تشخیص میں 45 فیصد تک کمی ہوئی۔

ماہرین نے واضح کیا کہ تشخیص کی کمی کا مطلب موذی مرض میں کمی نہیں بلکہ اس کے ٹیسٹس کی سست رفتاری ہے۔

ماہرین کے مطابق کورونا پھیلنے کے بعد کینسر جیسی موذی بیماری کے ٹیسٹس کے سست رفتار ہونے سے یہ بیماری مزید سنگین ہوچکی ہے اور بعد میں جن افراد میں کینسر کی تشخیص ہو رہی ہے، ان کا علاج کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ دو سال تک کینسر کی تشخیص نہ ہونے یا ٹیسٹ نہ کروانے کی وجہ سے جن افراد میں 2021 کے اختتام یا پھر 2022 میں کینسر کی تشخیص ہو رہی ہے، ان میں موذی مرض کا اسٹیج بڑھ چکا ہوتا ہے اور ان کے علاج میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کورونا کی وجہ سے نہ صرف کینسر کی تشخیص یا ٹیسٹس میں نمایاں کمی واقع ہوئی بلکہ لوگوں نے وبا کے باعث عام صحت کا خیال بھی نہیں رکھا اور چھوٹی بیماریوں کا علاج بھی نہیں کروایا۔

ماہرین کے مطابق تاہم کورونا میں کمی کے بعد 2021 کے اختتام سے کینسر کی تشخیص یا ٹیسٹس میں دوبارہ بہتری آئی ہے، تاہم اب بھی اس کی سطح 2019 سے کہیں کم ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ 2022 میں بھی کینسر کے ٹیسٹ یا اس کی تشخیص تیز ہوئی ہے، تاہم اس باوجود یہ سطح تین سال پہلے کی سطح تک نہیں پہنچ پائی۔