کیا عمران خان کے امریکا مخالف بیانیے سے سیاسی فائدہ اُٹھایا جا چکا؟
عمران خان وزیرِ اعظم تھے۔ اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد زوروں پر تھی۔ یہ 27 مارچ 2022 کی شام تھی۔ اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں پی ٹی آئی کا جلسہ تھا۔
عمران خان نے جیب سے خط نکالا، اپنے کارکنوں کو دکھایا اور کہا ’یہ خط ہے، جو بیرون ملک سے لکھا گیا، جس میں ہماری حکومت گرانے کی سازش کی گئی۔‘
بظاہر یہاں سے عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ تشکیل پاتا ہے مگر رواں برس مارچ میں ترتیب پانے والا امریکہ مخالف مؤقف پی ٹی آئی کے حالیہ حقیقی آزادی لانگ مارچ کے دوران کمزور پڑتا محسوس ہوا ہے۔ اس کی بنیاد عمران خان کے بعض انٹرویوز بنتے ہیں، جو اُنھوں نے مختلف غیر ملکی میڈیا اداروں کو دیے۔
یہاں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا عمران خان امریکہ سے متعلق بیانیے میں اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اِس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ کیا یہ پالیسی شفٹ ہے، اگر پالیسی شفٹ ہے تو کیا اب عمران خان امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار نہیں سمجھتے؟
سب سے پہلے تو اِس پہلو کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے یا نہیں؟
کیا عمران خان امریکہ مخالف پوزیشن بدل رہے ہیں؟
تجزیہ کار خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکہ مخالف مؤقف سے عمران خان کو جو سیاسی فائدہ ہونا تھا، ہو چکا۔ اب وہ آگے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور امریکہ کو مزید ناراض کرنے کے بجائے اُس کے ساتھ بہتر تعلقات اُستوار کرنا چاہتے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اپنے مؤقف سے ہٹ رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا ’عمران خان نے سائفر کے معاملہ پر یوٹرن لیا ہے، یوں امریکہ سے متعلق اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں‘ مگر سہیل وڑائچ مؤقف میں اس تبدیلی کو مثبت انداز سے دیکھتے ہیں۔
اُن کے مطابق ’سوال یہ ہے کہ پہلے والا مؤقف ٹھیک تھا، یا اب والا؟ میرا خیال ہے کہ پہلے والا مؤقف ٹھیک نہیں تھا۔ وہ اس وقت جو اپنی پالیسی میں تبدیلی لا رہے ہیں، خارجہ پالیسی کے لیے یہ ٹھیک ہے۔‘
یہی سوال جب پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما علی نواز اعوان سے پوچھا گیا تو اُنھوں نے تبدیل ہوتی پوزیشن کو تھوڑا مبہم انداز سے تسلیم کیا۔
اُن کا کہنا تھا ’امریکہ کی تاریخ رجیم چینج سے بھری ہوئی ہے۔ ہم امریکہ کے خلاف نہیں بلکہ اُس کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ ہماری پالیسی میں شفٹ نہیں آ رہا مگر ہم امریکہ سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور ویسے بھی آگے کی طرف بڑھنا چاہیے۔‘
سائفر بیانیے سے جو سیاسی فائدہ اُٹھانا تھا اُٹھایا جا چکا؟
عمران خان اپنے ایک انٹرویو میں مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ ’اب وقت گزر چکا، ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔‘
علاوہ ازیں ستمبر کے مہینے میں عمران خان کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی تھی، اُس میں بھی تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے کہا تھا کہ ’ہم نے صرف کھیلنا ہے، نام نہیں لینا امریکہ کا۔‘
اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما علی نواز اعوان کا ہم سے بات کرتے ہوئے ایسا ہی کہنا تھا ’ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔‘
یہاں سوال یہ ہے کہ سائفر سے متعلق بیانیے میں تبدیلی یا لچک سے عمران خان اب امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار نہیں دیتے؟ نیز سائفر سے جو سیاسی فائدہ اُٹھانا تھا، اُٹھایا جا چکا اور اب آگے کی طرف دیکھا جا رہا ہے، تو یہ سیاسی فائدہ کس نوعیت کا تھا؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے امریکہ مخالف جو مؤقف اختیار کیا تھا، اُس سے وہ امریکہ اور یورپ کو ناراض کر رہے تھے جبکہ مؤقف میں تبدیلی سے اقتدار میں واپسی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے تعلقات کو ٹھیک رکھنا ہو گا۔‘
جب مذکورہ سوالات سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے سامنے رکھے گئے تو اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ سے متعلق عمران کے مؤقف میں جو نرمی آئی ہے، اُس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ مخالف بیانیے کا سیاسی فائدہ اُٹھا لیا گیا ہے۔
’اب کافی وقت گزر چکا ہے اور امریکہ مخالف بیانیہ کمزور پڑ چکا ہے۔ عمران خان اپنی مقبولیت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس اقتدار میں واپس آنے کا موقع موجود ہے اور اگر اُن کو اب امریکہ مخالف لیڈر کے طورپر دیکھا گیا تو واپسی کے راستے مسدود ہو جائیں گے کیونکہ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے لیے اسٹیبلشمنٹ اُن کو ایک مسئلہ سمجھے گی۔ اس لیے وہ امریکہ سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘
ان کے مطابق یہ سب حکومت میں دوبارہ آنے کی تیاری ہے۔
ایسا ہی خیال کالم نگار خورشید احمد ندیم کا تھا۔ اُن کے مطابق ’عمران خان نے امریکہ میں لابنگ بھی شروع کی، اُن کو ایڈوائس دی جا رہی ہے کہ عوامی جذبات کو اپنے حق میں کرنے کا فائدہ اُٹھایا جا چکا ہے، اس لیے اگر دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں تو اگلے مرحلے کے لیے کام کریں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اہم کریں۔ لہٰذا اُنھوں نے سائفر کے مسئلہ پر یوٹرن لے لیا۔ سائفر سے جو سیاسی فائدہ اُٹھانا تھا، اُٹھایا جا چکا، اس لیے اب سوچ سمجھ کر مؤقف میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔‘
اس ضمن میں علی نواز اعوان کا کہنا تھا کہ آپ بیک وقت کسی کے خلاف یا حق میں نہیں ہو سکتے۔
’سائفر میں سخت الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ ہم سائفر کے معاملے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔‘
پی ٹی آئی کے ایک اور سینیئر رہنما محمود الرشید سے جب ہم نے بات کی تو اُن کا کہنا تھا ’ہماری امریکہ سے کوئی ذاتی دُشمنی نہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ کہا کہ ہمارا ایجنڈا امریکہ مخالف نہیں مگر برابری کی سطح پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے حالیہ بیانات کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔‘
مگر جب اُن سے یہ پوچھا کہ حالیہ عرصہ میں عمران خان کی جانب سے امریکہ سے تعلقات کی باتیں زیادہ ہو رہی ہیں تو محمود الرشید کا کہنا تھا ’شاید ایک ڈیڑھ ماہ پہلے عمران خان سے امریکن ڈپلومیٹ آ کر ملے تھے۔ وہاں کوئی ایسی باتیں ہوئی ہوں تاہم کوئی بڑی شفٹ یا پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔‘
عمران خان کا ماضی میں امریکہ سے متعلق کیا مؤقف رہا؟
عمران خان کے امریکہ سے متعلق تبدیل ہوتے مؤقف کی مزید وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ عمران خان اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے دِنوں میں امریکہ سے متعلق کیا مؤقف رکھتے تھے؟
پاکستان تحریکِ انصاف نے لگ بھگ ساڑھے تین سال حکومت کی۔ عمران خان کی اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کیا اقتدار کے عرصہ میں عمران حکومت کا امریکہ سے بہتر تعلقات، خارجہ پالیسی کا اولین نقطہ تھا؟
اس پر خورشید ندیم کا کہنا تھا ’عمران خان کا بیانیہ چند عناصر کا ایک ایسا ملغوبہ ہے، جو اُن کو عوام میں مقبول بناتے ہیں، جیسے امریکہ مخالف، مذہب پرست نقطہ نظر، کرپشن کے خلاف عوامی مؤقف وغیرہ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے خلاف عمران خان کی کسی سوچی سمجھی پالیسی کا کوئی سراغ ہمیں نہیں ملتا۔ ’اقتدار کے لمحوں میں ایسی نشاندہی نہیں کر سکتے کہ وہ امریکہ کے مخالف تھے یا امریکہ کے حوالے سے اُن کی کوئی واضح پالیسی تھی۔‘
سنہ 2018 کے الیکشن سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے طرزِ سیاست میں اینٹی امریکہ عنصر ملتا ہے؟ امریکہ سے متعلق مؤقف میں تبدیلی مبینہ خط کو قرار دیا جا سکتا ہے یا امریکی صدر جو بائیڈن کی عمران حکومت سے متعلق سرد مہری وجہ بنتی ہے؟
سینیئر تجزیہ کار و صحافی مرتضیٰ سولنگی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جو بائیڈن اُس وقت اقتدار میں آئے جب امریکہ افغانستان سے نکل رہا تھا، امریکہ میں پاکستان کے کردار پر شدید غم و غصہ تھا۔ صدارتی انتخابات کے دوران عمران انتظامیہ کے ٹرمپ نواز بیانات بھی پس منظر میں تھے۔ افغان طالبان کی تعریف میں عمران خان کے بیانات کو بھی بائیڈن انتظامیہ نے پسند نہیں کیا۔ رہی سہی کسر فون کال نہ کرنے پر میڈیا میں دھمکی آمیز رویہ نے پوری کر دی، اس طرح یہ تعلقات خراب ہوتے گئے۔‘
اس حوالے سے خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو بائیڈن کے باعث شخصی طور پر بےعزتی محسوس کی، جس کی وجہ سے یہ رائے اختیار کی۔
پی ٹی آئی کی امریکہ سے متعلق پالیسی دوسری جماعتوں سے کتنی مختلف؟
اس حوالے سے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں تینوں جماعتوں کی امریکہ سے متعلق پالیسی بیانات کی حد تک ہے، ان میں سے کوئی بھی جماعت امریکہ مخالف نہیں۔
’یہ جماعتیں حکومت کے اندر یا باہر ہوتے ہی اپنے بیانات میں معمولی رد و بدل کرتی ہیں اور ان بیانات کا قبلہ اسٹیبلشمنٹ کا اس مخصوص وقت میں امریکہ کی طرف رویہ بھی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ قطب نما کا کردار ادا کرتی ہے۔‘
خورشید ندیم کا اس پہلو پر کہنا تھا کہ امریکہ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی کے دو ادوار ہیں۔ ایک ذوالفقارعلی بھٹو کا دور تھا۔ جس کے اواخر میں اُن کا کہنا تھا کہ سفید ہاتھی اُن کے خلاف ہے لیکن بعد میں بے نظیر بھٹو نے آ کر مکمل طور پر ایک مختلف مؤقف اختیار کیا اور امریکہ حامی پالیسی رکھی۔
ان کے مطابق مسلم لیگ ن کا ایک واضح مؤقف یہ ہے کہ وہ تصادم کی سیاست نہیں کرتی، چاہے امریکہ ہو یا انڈیا، اُن کے ہاں تصادم سے گریز ملتا ہے، جبکہ عمران کی ماضی میں جو ڈرون حملوں کے حوالے سے پالیسی رہی ہے، وہ نمائشی تھی، اس لیے جب یہ اقتدار میں آئے تو کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اُنھوں نے امریکہ سے جدا یا ہٹ کر اپنی کوئی پالیسی بنائی ہو۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو