ہمارے نام نہاد تحریری آئین میں جو چاہے لکھا ہو فیصلہ با اختیار لوگوں کی اکثریت نے یہ کررکھا ہے کہ عمران خان صاحب کو غضب ناک ہونے سے ہر صورت باز رکھا جائے۔ ایوان صدر میں براجما ن ان کے دیرینہ وفادارجناب عارف علوی کہنے کو تو ”علامتی“ حیثیت رکھتے ہیں۔وفاقی حکومت سے بھیجی ہر سمری پر ان کو عمومی حالات میں بلاچوں وچرادستخط کردینا چاہیے۔ آئین ہی نے انہیں یہ اختیار بھی تاہم فراہم کررکھا ہے کہ پارلیمان سے منظور ہوئے کسی قانون میں انہیں گڑ بڑ یا سقم نظر آئے تو نظرثانی کی درخواست کے ساتھ اسے واپس لوٹادیں۔یہ اختیار انہیں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد یاد آیا ہے۔ وہ اسے دیگر معاملات کے حوالے سے بھی استعمال کرنا شروع ہوگئے۔آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں اضطراب کی جو کیفیت کئی مہینوں تک حاوی رہی اسے مسلط کرنے میں مذکورہ اختیار نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ بالآخر اس کے نتیجے میں ان کی مادر جماعت یعنی تحریک انصاف چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔سپریم کورٹ کی جانب سے ”لوٹوں“کی حیثیت طے کرنے والے فیصلے نے بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔
علوی صاحب کے اختیار کردہ رویے کے ”مثبت نتائج“ اب انہیں ”تعیناتی“ کے تناظر میں بھی حتمی ”ثالث“ کا مقام عطا کرتے نظر آرہے ہیں۔انہیں رام کرنے کو مسلم لیگ (نون) کے اسحاق ڈار صاحب جیسے قدآور رہ نما اور تگڑے وزیر کو سرجھکا کر ان کے دربار میں حاضری دینا پڑی۔ وہ صدر علوی کا دل جیتنے میں کامیاب رہے ہوتے تو بلاول بھٹو زرداری ”ہنگامی“ دِکھتی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ”سنگین نتائج“ کی دھمکیاں دینے کو مجبور نظر نہ آتے۔ وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس نے بلکہ واضح انداز میں یہ پیغام دیا کہ آئین کی شق 243اپنی وقعت کھوچکی ہے۔
وفاقی حکومت جس کا ”چیف ایگزیکٹو“ منتخب وزیر اعظم کو اس آرٹیکل نے قرار دے رکھا ہے ۔اب ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے بھی صدر مملکت کی رضا مندی کی محتاج بن چکی ہے۔ایسا اختیار تو آٹھویں ترمیم کے ہتھیار سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان اور سردار فاروق خان لغاری کو بھی میسر نہیں رہا۔ اس ترمیم کے ہوتے ہوئے بھی نواز شریف اپنے پہلے دور اقتدار میں مرحوم جنرل آصف جنجوعہ کو وقت مقررہ سے تین ماہ قبل آرمی چیف نامزد کروانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سردار فاروق خان لغاری کی ترجیح کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل جہانگیر کرامت کو مذکورہ منصب پر تعینات کروایا۔آٹھویں ترمیم اگرچہ اب آئین سے نکالی جاچکی ہے۔ اس کی عدم موجودگی نے بھی تاہم عارف علوی صاحب کو غلام اسحاق خان اور سردار فاروق خان لغاری سے بھی کہیں زیادہ بااختیار بنادیا ہے۔شہباز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی گیارہ جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل حکومت ”اس تنخواہ“ پر گزارہ کرنے کو مجبور ہے۔
تحریری آئین کی بے توقیری پارلیمانی جمہوریت کے مجھ ایسے ثنا خوانوں کے لئے پریشانی کا باعث ہونا چاہیے تھی۔ٹھنڈے دل سے مگر گزشتہ چند دنوں سے عیاں ہوتی بے توقیری پر غور کیا تو خیال آیا کہ میرے اور آپ جیسے پاکستانی آئین کے تحت چلائی کسی مملکت کے شہری نہیں۔ محض رعایا ہیں۔ ”رموز سلطانی“ کی فکر میں مبتلا کیوں ہوں۔جن کے ”چھابے“ میں ہاتھ ڈالا جارہا ہے وہ جانیں اور ان کا کام۔
عمران خان صاحب کے اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد شہباز شریف وطن عزیز کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے آئین کے تحفظ اور پاسداری کا حلف اٹھایا۔ مذکورہ حلف پر عملداری بنیادی طورپر ان ہی کی ذمہ داری ہے۔وہ اگر اپنی بے بسی کی بابت پریشان نہیں تو میں اپنا دل کیوں جلاﺅں۔ صدر عارف علوی نے انہیں اس قابل بھی نہیں گردانا تھا کہ وزیر عظم شہباز شریف سے ایوان صدر میں حلف لیں۔ اس ضمن میں معذوری کا اظہار کیا تو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو یہ فریضہ ادا کرنا پڑا۔
1985سے شہباز شریف صاحب اقتدار کے ایوانوں میں رچائے ہر کھیل کے بارے میں مجھ سے کہیں زیادہ با خبر رہے ہیں۔ مذکورہ برس سے ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ وہ اقتدار کی بساط پر پھنسی ہر گوٹ کو آگے بڑھانے کی راہ ہر صورت نکال لیتے ہیں۔ آئین کی تشریح کے حوالے سے ”افلاطون“ مشہور ہوئے کسی بھی شخص سے رجوع کئے بغیر انہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ ہمارے تحریری آئین کے مطابق ”علامتی عہدے“ کا حامل صدر کسی بھی معاملے کو زیادہ سے زیادہ 25دنوں تک ٹال سکتاہے۔ وہ کسی بھی معاملے پر اڑی دکھانے کو بضد رہے تب بھی مذکورہ دنوں سے ایک گھنٹہ زیادہ بھی کنفیوژن برقرار نہیں رکھ سکتا۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں رواں مہینے کا آغاز ہوتے ہی وزارت دفاع کو تعیناتی کے حوالے سے چٹھی لکھ کر سمری منگوالینا چاہیے تھی۔مطلوبہ سمری وصول ہونے کے بعد اپنی ترجیح طے کرنے کے بعد اسے ایوان صدر بھجوادیتے۔ یہ قدم اٹھانے سے مگر انہوں نے گریز کیا۔ گریز کی وجوہات ”رعایا“ کے روبرو نہیں لائے۔ مصر سے ”اچانک“ لندن روانہ ہوگئے۔ وہاں گزارے چار دنوں میں اپنے بڑے بھائی سے مسلسل مشاورت کرتے رہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف بھی وہاں موجود تھے۔اس کے علاوہ قصور کے نوجوان سیاستدان ملک محمد احمد بھی ان ملاقاتوں کے لئے خصوصی طورپر وہاں بلائے گئے۔ لندن میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران کونسا موضوع زیر بحث رہا اس کے بارے میں وزیر اعظم سمیت باقی شرکاءخاموش رہے۔عمران خان صاحب البتہ تواتر سے دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ ”بھگوڑے سزا یافتہ“ سے ایک ”حساس ترین“ ریاسی معاملے کی بابت ”مشاورت“ ہورہی ہے۔خواجہ آصف جیسے دبنگ وزیر وطن لوٹتے ہی ان کے لگائے الزام کی تردید کو مجبور ہوئے۔ عمران خان صاحب کی جانب سے ”عدالت سے رجوع“ کرنے والی دھمکی مذکورہ تردید یا وضاحت کا واضح سبب تھی۔صدر عارف علوی کے پاس وزیر عظم کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے لئے اب 25دنوں تک پھیلا وقت موجود ہے۔ جو وقت ان کو ہارے ہوئے لشکر نے سرجھکائے فراہم کردیا ہے وہ اعلیٰ عدالت کو بھی اپنا ”اختیار“ دکھانے کو مجبور کرسکتا ہے۔آئین میں بہت سوچ بچار کے بعد متعارف کروائی شق 243لہٰذا اب کتاب کا حصہ ہی رہے گی جسے آپ پڑھ سکتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوا نہیں دیکھ پائیں گے۔