Site icon DUNYA PAKISTAN

عمران خان کو نشانہ بنانے کا الرٹ اور افغان تاجر کی گرفتاری: کیا تھریٹ الرٹس سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں؟

Share

رواں برس 18 جون کو پشاور میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ ’قابل اعتماد ذرائع‘ سے یہ معلومات موصول ہوئی ہیں کہ چند دہشت گردوں نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ 

اس الرٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کام کے لیے افغانستان میں موجود ’کوچے‘ نامی ’دہشتگرد‘ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جس نے عمران خان کو نشانہ بنانے کے لیے ایک ٹیم پاکستان روانہ کر دی ہے۔

یہ الرٹ جاری ہونے کے دو دن بعد سی ٹی ڈی نے 20 جون کو پشاور کینٹ سے متصل شامی روڈ کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے وہاں رہائش پذیر ایک افغان کاروباری شخصیت نور رحمان کوچے کو حراست میں لیا جنھیں تین دن تک مختلف تفتیشی مراحل سے گزارنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

اس کارروائی میں حصہ لینے والے انٹیلیجنس افسران میں سے بعض نے اس گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تھریٹ الرٹ میں افغانستان میں موجود کوچے نامی مبینہ دہشت گرد کے حوالے کے باوجود پشاور میں ایک پوش علاقے میں رہنے والے اسی قبیلے کے ایک اہم رہنما اور تاجر نور رحمان کوچے کو اٹھایا گیا جنھیں ابتدائی تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا۔

تھریٹ الرٹس کے طریقہ کار سے واقف اِن اہلکاروں میں سے کسی نے بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ الرٹ میں نامزد مبینہ دہشت گرد اورگرفتار کیے جانے والے افغان تاجر میں کیا تعلق تھا اور اس اہم کارروائی کے لیے متعلقہ سورس (فرد، تنظیم) یا اطلاع کی ساکھ مطلوبہ معیار تک بہتر تھی یا نہیں؟

اگرچہ یہ معاملہ جون کے مہینے میں پیش آیا تھا مگر رواں ماہ کے آغاز میں تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاملے پر دوبارہ بات کی ہے۔

مراد سعید نے اپنی پریس کانفرنس میں الرٹ میں نامزد کیے گئے ملزمان کے تانے بانے پاکستان کے کچھ اداروں سے جوڑنے کے بھی اشارے دیے اور سوال اٹھایا کہ کیوں ملزم کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اس حوالے سے مراد سعید سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ 

گذشتہ دنوں نور رحمان کوچے نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے پاکستانی حکومت، ریاست اور عدالت عظمیٰ سے انصاف کی اپیل کی اور کہا کہ اگر وہ بے گناہ ہیں توعدالت انھیں انصاف دے۔ 

’مجھ سے صرف میرے کاروبار کے بارے میں پوچھ گچھ ہوئی‘

نور رحمان کوچے نے اپنی رہائش گاہ پر بات چیت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ افغانستان میں 54 کلومیٹر پر محیط کرومائٹ کے ذخیرے کے مالک ہیں اور یہ پتھر وہاں سے نکال کر باہر کے ممالک میں بھیجا جاتا ہے اوراس کی قیمت ڈالرز میں پاکستان آتی ہے جس کا سارا فائدہ پاکستانی معیشت کو ہو رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اُن کا پورا خاندان گذشتہ 40 سال سے قانونی ویزوں پر پاکستان میں رہائش پزیر ہے۔ 

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے وضاحت کی کہ رواں برس جون میں انھیں حراست میں لیے جانے کے بعد اُن سے صرف اُن کے کاروبار کی بابت پوچھ گچھ کی گئی اور عمران خان کے معاملے پر ایک سوال بھی نہیں ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں سچ اورجھوٹ جانچنے کے سائنسی طریقے یعنی پولی گرافی ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا جس کے بعد انھیں خود پولیس نے گھر پر لا کر چھوڑ دیا۔

تھریٹ الرٹ میں نام آنے کے باوجود ان کا نام ای سی ایل میں نہیں رہا اور انھوں نے گذشتہ ماہ یعنی اکتوبر کے دوران عمرہ ادا کیا اور واپسی پر وہ برسلزگئے۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور صحافی ارشد شریف کی زندگیوں کو لاحق مبینہ خطرات کے بارے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے انٹیلیجنس اداروں نے جو ’تھریٹ الرٹس‘ جاری کیے تھے، اُن کے سامنے آنے کے بعد چند وفاقی وزرا نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے تھریٹ الرٹس کو ’سیاسی مقاصد‘ کے لیے جاری کرنے اور استعمال کرنے جیسے الزامات عائد کیے تھے۔

وفاقی وزرا کی جانب سے یہ شکوک و شبہات سامنے آنے کے بعد اِن تھریٹ الرٹس کے بارے میں بحث شروع ہو گئی کہ تھریٹ الرٹس ہوتے کیا ہیں، انھیں کن بنیادوں پر جاری کیا جاتا ہے، سکیورٹی کے نظام میں ان کی کیا اہمیت ہے اور کیا انھیں سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے؟ 

تھریٹ الرٹ کیا ہے اور یہ کس بنیاد پر جاری ہوتا ہے؟

خیبر پختونخوا میں سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پولیس کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے سابق سینیئر پولیس افسر ڈاکٹر اختر علی شاہ نے بتایا کہ تھریٹ الرٹ کسی ممکنہ دہشتگردی کے سدباب کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ 

’یہ الرٹ کسی خاص سرکاری عمارت یا شخصیت کے حوالے سے جاری کیا جا سکتا ہے، جس کی بنیاد کسی فرد، انٹیلیجنس ادارے اور کسی وائرلیس یا فون کال ٹیپ کرنے کے باعث ملنے والے اشاروں پر ہوتی ہے۔ اس نوعیت کی اطلاع ملنے کے بعد سکیورٹی کے خاص انتظام کیے جاتے ہیں تاکہ ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس نوعیت کے الرٹ پہلے وفاقی سطح پر کرائسز منیجمنٹ سیل میں موجود تمام اہم اداروں کے لوگوں کے درمیان زیر بحث آتے تھے اور وہاں سے یہ جاری کیے جاتے تھے مگر جب ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا تو اب سی ٹی ڈی اس معاملے پر مرکزی ایجنسی بن گئی ہے۔ 

’اب سی ٹی ڈی میں ہی دہشت گردی کے حوالے سے پیشگی اطلاعات آتی ہیں، وہیں ممکنہ خطرے کی جانچ کی جاتی ہے اور منصوبہ بندی کرنے والوں کا پیچھا بھی کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے الرٹس کی بنیاد پر کارروائیوں کے نتیجے میں کامیابی سے بڑے نقصانات سے بچا گیا ہے۔ 

انھوں نے کہا کہ جب کسی الرٹ میں باضابطہ طور پر کسی ملزم کو نامزد کیا جاتا ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملزم کو حراست میں لینے سے قبل ثبوت جمع کریں۔ 

ہمارے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سابق سربراہ احسان غنی کا کہنا تھا کہ وہ معلومات جن کی بنیاد پر تھریٹ الرٹ جاری ہوتے ہیں ان کے ذرائع انسانی بھی ہوتے ہیں اور یہ ٹیکنیکل طریقے سے بھی حاصل کیے جاتے ہیں جیسا کہ فون ٹیپ کرنا یا سگنلز ٹریس کرنا۔ ’مجموعی طور پر یہ معلومات اکٹھا کرنے کے 12 یا اس سے کچھ زیادہ طریقے ہوتے ہیں۔‘

احسان غنی کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے دنوں میں سال 2013 میں نیکٹا نے تمام تھریٹ الرٹس کا ایک وقت میں جائزہ لینے کا فیصلہ کیا کہ کتنے الرٹ آئے اورکتنے کارآمد ثابت ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اوردیگر اداروں کو کسی حملے کی مکمل معلومات تو نہیں ملتیں بس کچھ اشارے ملتے ہیں جس پر تلاش شروع ہو جاتی ہے اور خود دہشت گردوں کو بھی پتا ہوتا ہے کہ ان کی انفارمیشن ٹریس ہو سکتی ہے تو وہ آسان فہم زبان میں بات نہیں کرتے بلکہ مبہم باتیں کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ عمران خان کے ساتھ ساتھ معروف صحافی ارشد شریف کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی تھریٹ الرٹ خیبرپختونخوا سے جاری ہوا تھا جس کے مطابق طالبان کا ایک گروپ ارشد شریف کو نشانہ بنانے کے لیے موقع کی تلاش میں تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایسی اطلاعات ملنے کے بعد انھوں نے خود ارشد شریف کو ملک چھوڑنے کا کہا تھا تاہم بعدازاں پاکستانی طالبان نے ایسی کسی کارروائی کی منصوبہ بندی کرنے سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔

یاد رہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس نوعیت کے تھریٹ الرٹس کو ’فرمائشی‘ قرار دیا تھا۔ 

کیا تھریٹ الرٹس کا سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے؟

صحافی و تجزیہ کار صفی اللہ گل ماضی میں دہشت گردی سے متاثرہ صوبے خیبرپختوا میں سکیورٹی سے متعلقہ معاملات پر بھی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ ہر تھریٹ الرٹ جاری کرنے کے پس پردہ ’سیاسی مقاصد‘ ہوتے ہیں کیونکہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جن شخصیات کے حوالے سے سکیورٹی خدشات پر حملوں کا الرٹ جاری ہوا انھیں نشانہ بنایا بھی گیا۔

’بینظیر کی وطن واپسی پر ان پر ہونے والے حملے کا تھریٹ الرٹ موجود تھا، اسی طرح مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان، آفتاب شیر پاؤ، بشیر بلور پر حملے ہوئے جن کے خدشات پہلے ظاہر کیے گئے تھے۔‘

’مگر دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سنہ 2013 اور سنہ 2018 کے الیکشن سے پہلے بڑی تعداد میں مخصوص پارٹیوں کے حوالے سے تھریٹ الرٹس جاری ہوئے جن کو بنیاد بناتے ہوئے انھیں جلسے جلوس کرنے کی سکیورٹی کلیئرنس نہیں دی گئی اور اس کا بلاواسطہ فائدہ مخصوص سیاسی جماعتوں کو ہوا۔‘

’اس سے یہ بات واضح ہے کہ بعض اوقات اصل خطرہ موجود ہوتا ہے جو تھریٹ الرٹ کے ذریعے سامنے لایا جاتا ہے مگر بعض اوقات اس معاملے کے پیچھے سیاسی محرکات بھی موجود ہوتے ہیں جن کا پتا بعد میں چلتا ہے کہ کس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔‘

سال 2007 سے لے کر 2013 تک پشاور شہر میں مختلف اہم پوزیشنز پر تعینات ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ان کے دو تھانوں کی حدود میں دوبار اے این پی رہنما کی کارنر میٹنگ رکھی گئی تھی۔

’حالات بہت زیادہ تناؤ کا شکار تھے اور اطلاع مل چکی تھی کہ خود کش حملہ آور آ چُکے ہیں لیکن صوبائی سینیئر وزیر بشیر بلور کارنر میٹنگ میں آنے پر مصر تھے جس پر سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں کی بڑی تعداد نے میٹنگ کو گھیر لیا جس کی وجہ سے حملہ آور کو اندر گھسنے کا موقع نہ ملا‘

پولیس افسر نے مزید بتایا کہ’ایک بار اُنھیں بشیر بلور کو میٹنگ میں شرکت سے روکنے کے لیے ان کے راستے میں ایک فرضی روڈ بلاک بھی بنانا پڑا جس کی وجہ سے وہ میٹنگ میں نہ پہنچ سکے اور اس بات کا اعتراف بعد ازاں گرفتار ہونے والے ایک حملہ آور نے گرفتار ہونے پر تفتیش کے دوران بھی کیا۔‘

Exit mobile version