پاکستان

ملک بھر کی پولیس میں تبادلوں اور تعیناتیوں کا 8 سالہ ریکارڈ طلب

Share

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور صوبوں سے محکمہ پولیس میں گزشتہ 8 برسوں کے دوران ہونے والے تبادلوں اور تعیناتیوں کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ افسران کی بار بار تبدیلی سے محکموں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پنجاب پولیس کے تبادلوں اور تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کیے۔

3 رکنی بینچ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

درخواست گزار فیصل آباد کے رہائشی رانا طاہر سلیم نے محکمہ پولیس کے معاملات میں غیر قانونی سیاسی مداخلت روکنے کے لیے مناسب احکامات دینے کی استدعا کی تھی۔

انہوں نے پولیس آرڈر 2002 کی کھلی خلاف ورزی کا معاملہ بھی اٹھایا جس میں پولیس اہلکاروں کے تبادلے کے حوالے سے میعاد کو تحفظ دیا گیا ہے جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایس ایچ او سے لے کر انسپکٹر جنرل آف پولیس تک پولیس افسران کے تقرر و تبادلے کیے جاتے ہیں۔

آج سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سیاسی مداخلت کے نتیجے میں صوبے میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی اور تبادلے کیے گئے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈی پی او لیہ کا حالیہ تبادلہ بھی اسی بنیاد پر کیا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل کی جانب سے پیش کردہ اعدادوشمار پر ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی پی او کی اوسط مدت صرف 5 ماہ رہی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ 4 برسوں میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے کیے گئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کی جانب سے پیش کیے گئے ڈیٹا کا ذریعہ کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ڈیٹا، کیپٹل سٹی پولیس آفس سے حاصل کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ محکمہ پولیس میں سیاسی تعیناتیاں فوجداری نظام انصاف کو متاثر کرتی ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایسے حالات ہی افسران کو سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ پوسٹنگ حاصل کرنے پر اکساتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے نشاندہی کی کہ یہ معاملہ صرف پنجاب تک محدود نہیں ہے، درخواست گزار کی درخواست پر عدالت عظمیٰ نے درخواست کا دائرہ صرف پنجاب کے بجائے دیگر صوبوں تک بڑھا دیا۔

ان دلائل کے بعد چیف جسٹس نے حکومت اور صوبوں کو 2 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

درخواست

یہ درخواست بنیادی طور پر پنجاب میں پولیس افسران کی سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تعیناتیوں اور تبادلوں کے خلاف تھی۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں صوبے میں تعیناتی کی اوسط مدت کا ریکارڈ پیش کیا، انہوں نے کہا کہ سیاسی حکمرانوں کی جانب سے تقرریوں، تبادلوں سے متعلق معاملات میں پولیس انتظامیہ (ڈی پی او سے لے کر آئی جی پولیس تک) کے اختیارات کو غیر قانونی طور پر استعمال کرکے محکمہ پولیس کی خودمختاری کو سلب کیا جا رہا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’اس طرح کے تقرر و تبادلے سے محکمے کی چین آف کمانڈ متاثر ہوتی ہے، پولیس فورس سیاست زدہ ہوتی ہے اور یہی سیاسی طور پر تعینات افسران کی جانب سے متعصب تحقیقات اور طاقت کے غیر ضروری استعمال کی بنیادی وجہ ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کے باعث پولیس فورس کے حوصلے میں بھی کمی آئی جس کے نتیجے میں ریاست کی رٹ کمزور ہوئی۔

اپنے دعوے کی تائید میں درخواست گزار کے وکیل نے پولیس افسران کی تقرریوں اور ان کی تعیناتی کی مدت کا گزشتہ 4 سال کا ریکارڈ پیش کیا۔

ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے 8 آئی جیز کو 7 جون 2018 سے 29 اگست 2022 تک تعینات کیا گیا جس کی اوسط تقرر کی مدت 6 ماہ 25 روز بنتی ہے، اسی طرح حکومت نے 6 ماہ 56 روز کی اوسط مدت کے لیے لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسران (سی سی پی اوز) کو تعینات کیا۔

آر پی اوز کی اوسط مدت کے بارے میں عدالت عظمٰی کو تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے راولپنڈی کے 7 آر پی اوز کی اوسط پوسٹنگ مدت 6 ماہ 14 روز، گجرانوالا کے 8 آر پی اوز کی اوسط مدت 5ماہ 2 روز، ملتان کے 6 آر پی اوز کی اوسط مدت 7ماہ 33 روز، شیخوپورہ کے 9 آر پی اوز کی اوسط مدت 4 ماہ 56 روز، ساہیوال کے 6 آر پی اوز کی مدت ملازمت 7ماہ 33 روزرہی۔

اس کے علاوہ 6 ماہ 16 روز کے ساتھ سرگودھا کے 7 آر پی او، 7 ماہ 33 روز کے ساتھ بہاولپور کے 6 اور اوسطاً 9 ماہ کی مدت میں ڈی جی خان کے 5 آر پی اوز تعینات کیے گئے۔

فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں تعینات سی پی اوز کی مدت کا بھی یہی حال رہا، ریکارڈ میں بتایا گیا کہ لاہور میں ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ کا اوسط دورانیہ 3 ماہ جب کہ پنجاب کے دیگر علاقوں میں یہ دورانیہ 2ماہ 89 روز ریکارڈ کیا گیا۔