صدر عارف علوی کے پاس کیا قانونی اختیارات ہیں اور سمری پر دستخط میں تاخیر کی صورت میں کیا ہو گا؟
پاکستان میں گذشتہ کئی روز سے ذرائع ابلاغ میں میں ایک ہی سوال زیر بحث تھا کہ پاکستانی فوج کا اگلا آرمی چیف کون ہو گا اور اس حوالے سے حتمی فیصلے کے بارے میں جاری تنازع کب ختم ہو گا۔
آج بالآخر حکومت کی جانب سے نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور جمعرات کو علی الصبح ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس حوالے سے سمری صدر عارف علوی کو ارسال کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ تو ہو چکا مگر اب سب نظریں ایوان صدر پر ہیں کہ آیا صدر علوی اس فیصلے کی توثیق کریں گے یا دستیاب قانونی آپشنز کا استعمال کرتے ہوئے اس معاملے کو التوا کا شکار کریں گے۔
اس حوالے سے گذشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے دیے گئے ایک بیان کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز اے آر وائے نیوز کے پروگرام ’دی رپورٹرز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی پر صدر کے ساتھ مل کر کھیلیں گے اور صدر عارف علوی ان سے بطور پارٹی صدر اس حوالے سے مشاورت ضرور کریں گے۔‘
جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا سمری رُک بھی سکتی ہے اور کیا اس حوالے سے معاملہ سپریم کورٹ تک بھی جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ’میں پھر کہوں گا کہ آرمی چیف کے معاملے پر صدر عارف علوی کے ساتھ مل کر آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کھیلیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں فرق نہیں پڑتا کہ آرمی چیف کون بنتا ہے ہمیں تو صرف نواز شریف کی نیت پر شک ہے، کیونکہ وہ جسے بھی آرمی چیف لگوائیں گے اس سے چاہیں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے انھیں (پی ٹی آئی کو) مار پڑوائیں اور عمران خان کو کونے سے لگوا کر نااہل کروائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نوازشریف کا لایا ہوا آدمی پہلے دن سے متنازع ہو جائے گا۔‘
عمران خان کے اس بیان کے بعد سے حکومتی حلقوں میں بھی خاصی ہلچل دیکھنے کو ملی اور گذشتہ روز ہونے والے اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیرِ بحث لایا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے نئی تعیناتیوں کے اعلان کے بعد وفاقی وزیر برائے دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’ایڈوائس صدر علوی کے پاس چلی گئی ہے، اب عمران خان کا امتحان ھے وہ دفاع وطن کے ادارے کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں یا متنازعہ۔ صدر علوی کی بھی آزمائش ہے کہ وہ سیاسی ایڈوائس پر عمل کریں گے یا آئینی و قانونی ایڈوائس پر۔ بحیثیت افواج کے سپریم کمانڈرادارے کو سیاسی تنازعات سےمحفوظ رکھنا ان کا فرض ہے۔‘
’صدر پاکستان کے دفتر کو آئینی طور پر 15 دن کا وقت دیا جاتا ہے‘
خیال رہے کہ بطور صدر عارف علوی کا کردار اس وقت متنازع ہوا تھا جب ان کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہونے کے بعد سے حکومتی فیصلوں میں ’تاخیری حربے‘ استعمال کیے گئے تھے۔
صدر عارف علوی نے موجودہ حکومت کو جو سب سے پہلا سرپرائز دیا تھا وہ عین اس دن دیا جب شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انھیں صدر پاکستان سے حلف لینا تھا مگر ایوان صدر سے یہ خبر آئی کی صدر عارف علوی کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے اب وہ مختصر رخصت پر جا رہے ہیں۔
تاہم اس کے بعد جب پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی کی حلف برداری کا معاملہ سامنے آیا تو انھوں نے حلف برداری کی تقریب راتوں رات ایوان صدر میں منعقد کروا دی۔
اس حوالے سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے عارف علوی کے ساتھ مل کر جس ’کھیل‘ کی بات کی جا رہی ہے وہ کیا ہو سکتا ہے اور آئین و قانون صدر کو کیا اس حوالے سے کیا اختیارات دیتا ہے۔
رواں سال کے آغاز میں سلمان اکرم راجہ نے اس بارے میں نامہ نگار اعظم خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو خیال یہی کیا جاتا ہے کہ صدر کا عہدہ محض ایک ’ڈاکخانہ‘ ہے مگر ان کو حاصل آئینی اختیارات پر اگر نظر دوڑائی جاتے تو وہ حکومت کے کئی ضروری معاملات کو مختصر مدت کے لیے لٹکا سکتے ہیں اور اہم فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’جب صدر کو وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے کوئی سمری منظوری کے لیے ارسال کی جاتی ہے تو صدر پاکستان کے آفس کو آئینی طور پر (آرٹیکل 48 کے تحت) اس پر فیصلے کے لیے 15 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد صدر مملکت اس سمری کو از سر نو جائزے کے لیے واپس دوبارہ وزیراعظم یا کابینہ کو بھیج سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’دوبارہ جائزے میں کم از کم ایک دن تو لگ جاتا ہے اور اگر پھر بھی وزیراعظم اور کابینہ کی سمری وہی ہو تو بھی صدر مزید دس دن تک اس پر سوچ و بچار کر سکتے ہیں۔‘
سلمان اکرم راجہ کے مطابق یوں صدر کسی بھی معاملے کو تقریباً ایک ماہ تک تاخیر کا شکار بنا سکتے ہیں۔ ’یہ نظام میں ایک بڑا تضاد ہے۔‘
ایڈوائس صدر علوی کے پاس چلی گئی ھے.اب عمران خان کا امتحان ھے وہ دفاع وطن کے ادارے کو مضبوط بنانا چاہتا ھے یا متنازعہ. صدر علوی کی بھی آزمائش ھے کے وہ سیاسی ایڈوائس پہ عمل کرینگےیاآئینی وقانونی ایڈوائس پہ. بحیثیت افواج کےسپریم کمانڈرادارے کو سیاسی تنازعات سےمحفوظ رکھنا انکا فرض ھے
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) November 24, 2022
’صدر سمری روک کر بیٹھ گئے تو سینیئر ترین کور کمانڈر عارضی طور پر آرمی چیف ہوں گے‘
جمعرات کی دوپہر میڈیا کے نمائندوں کے ایک سوال کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی پر صدر عارف علوی کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی لیکن جو بھی چیز ہو گی وہ قانون و آئین کے مطابق ہو گی۔‘
اس حوالے سے مزید تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’صدر عارف علوی پورے ملک کے صدر ہیں اور وہ کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں اس لیے اگر وہ عمران خان سے مشاورت کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔‘
اس حوالے سے گذشتہ روز اتحادی حکومت کے اراکین نے مقامی میڈیا پر مختلف ٹاک شوز میں اپنی رائے دی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کے کھیلنے سے فرق نہیں پڑے گا، صدر علوی نے ماضی میں بھی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اس لیے حکومت چاہے گی کہ اگر سمری کے حوالے سے کوئی آئینی سقم رہ جائے تو اسے پورا کیا جائے۔
’اگر ایک بار سمری چلی گئی تو اس پر دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔‘
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان قائرہ کا کہنا تھا کہ ’فرض کر لیجیے صدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ سمری رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہم بھی اس کا توڑ سوچ کر بیٹھے ہوں گے۔ جب وزیرِ اعظم نے اپنا آئینی اختیار استعمال کر لیا، اور صدر سمری روک کر بیٹھ گئے تو پھر کیا ہو گا، جو بھی سینیئر ترین کور کمانڈر ہوں گے وہ تب تک عارضی طور پر آرمی چیف کی ذمہ داری نبھائیں گے۔‘
قمر زمان کائرہ کے مطابق ’یا ایک اور صورت ہو سکتی ہے کہ وزیرِ اعظم موجودہ آرمی چیف کو کہتے ہیں کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ تو اس سے کیا قیامت آ جائے گی، یہ ایک روٹین کا مسئلہ ہے جسے حل کر لیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ اس وقت سینیئر ترین کورکمانڈر ساحر شمشاد مرزا ہیں جو کہ راولپنڈی میں موجود ٹین کور کے کمانڈر ہیں اور انھیں بطور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی نامزد کیا گیا ہے جبکہ سب سے سینیئر لفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر ہیں جنھیں بطور آرمی چیف نامزد کیا گیا ہے۔
اس بارے میں سابق سیکریٹری دفاع لفٹیننٹ جنرل خالد نعیم لودھی نے بی بی سی کے محمد صہیب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یوں تو حکومت کی جانب سے منظور شدہ قواعد کے مطابق اگر فوری طور پر فوج کا آرمی چیف کسی وجہ کے باعث عہدے پر نہیں ہوتا تو سینیئر ترین کور کمانڈر عارضی بنیادیوں پر عہدے کا چارج سنبھال لیتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لیکن اگر سمری تعطل کا شکار ہوتی ہے تو اس صورت میں جنرل عاصم منیر ہی عارضی طور پر بطور آرمی چیف ہو سکتے ہیں مگر اس سے یہ معاملہ پیچیدہ ہو جائے گا۔‘
قمر الزمان کائرہ نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ آرمی چیف کے معاملے پر آصف زرداری سے مشاورت کرنے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں حالانکہ وہ ایک منتخب نمائندے ہیں لیکن صدر عارف علوی جو نیوٹرل ہیں، اور ان کی ایک آئینی حیثیت ہے وہ عمران خان سے کس حیثیت میں مشاورت کریں گے۔‘
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی جانب سے گذشتہ روز جیو نیوز کے پروگرام ’آپس کی بات‘ میں بات کرتے ہوئے کہا تھا ’اگر وہ کہتے ہیں کہ آئین کے درمیان رہتے ہوئے کھیلیں گے تو اس سے بُرا اس ملک کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
’ٹھیک ہے ہمیں بھی اس سے دھچکا لگے گا اور ملک میں افراتفری کی صورتحال ہوتی ہے اور اس میں حتمی طور پر ہار عمران خان کی ہو گی۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو