ایران میں حجاب پہننے پر احتجاج اور سیاست!
لیجئے ایک بار پھر” حجاب” پر سیاست گرمایا۔ لیکن حجاب کا معاملہ نہ یورپ سے ہے، نہ ہندوستان سے ہے، نہ امریکہ سے ہے بلکہ اس کا تعلق ایران سے ہے۔اب آپ ہی میری طرح شش و پنج میں پڑ گئے ہوں گے کہ ایران میں حجاب کے خلاف احتجاج کیوں ہورہا ہے۔
عام طور پر ہمارے ذہن میں ایران یا سعودی عرب میں اگر مذہبی کسی احکام پر احتجاج یا تنقید ہوتی ہے تو ہمارے ذہن میں طرح طرح کے سوالات ابھرنے لگتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایران اور سعودی عرب دونوں ممالک شیعہ اور سنی عقیدے کے لوگوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔اس لئے اگر مذہبی یا ثقافتی طور پر کوئی بحث چھڑتی ہے تو ہم سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد امریکہ اور مگربی ممالک تو تاک میں بیٹھے رہتے ہیں۔ بس جناب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسئلہ ایران یا سعودی عرب کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ تو برطانیہ اور دیگر مگربی ممالک کا ہے۔جس میں اپنی ٹانگ اڑانا یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
ویسے بھی اسلام کے متعلق کوئی بھی بات جب زیرِ بحث ہوتی ہے تو سب سے زیادہ بے چین اور بیقرار مغربی لوگ ہوتے ہیں۔اور ہوں بھی کیوں نہ، کیونکہ یہ تو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چمپئین سمجھتے ہیں۔ یعنی کہ اگر دیکھا جائے تو زبان، ثقافت سے لے کر تمام مغربی اقدار کو پوری دنیا میں رائج کرنا ہی ان کا اولین مقصد ہے۔اب یہ ان مسلم ممالک جہاں عورتیں حجاب پہننا ضروری سمجھتے اس کے خلاف آئے دن پروپگنڈا چلا رہے ہیں۔یعنی کہ عورتیں مغربی لباس پہننا شروع کر دیں تو بس انہیں لگتا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق اور آزادی مل گئی۔
اور کیوں نہ کریں جب دنیا کی معاشی ان کے قبضے میں ہے تو ہماری کیا بساط ان کے سامنے کے ہم ان سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کریں۔ اور اگر کسی نے آنکھ ملا کر بات کی تو بس آپ کو علم ہی ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔چاہے وہ عراق کے صدر صدام حسین ہوں، لبیا کے صدر قدافی ہوں، یا روس کے صدر پوتین ہوں۔ ان سبھوں کو مغربی طاقتوں سے آنکھ ملانے کی جو سزا ملی اس سے ساری دنیا واقف ہے۔
خیر اس بار حجاب کا معاملہ ایران سے جڑا ہے۔جب یہ خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی کہ ایک بائیس سالہ لڑکی ماشا امینی غلط طریقے سے حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد پولیس کی سختی اور زدوکوب سے انتقال کر گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہسپتال کے باہر احتجاج شروع ہوگیااور اس کے بعد یہ احتجاج پورے ایران میں پھیل گئی۔ ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ جگہ جگہ پر لڑکیاں اپنے سروں سے حجاب کو اتار کر جلا ڈالی اور اپنے بال بھی کاٹنے لگیں۔ پھر کیا تھا اندھے کو چاہیے دو آنکھیں۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ اسی تاک میں بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے نیوز چینل پر ایسا پروپگنڈہ کیا کہ یوں لگا کہ اب ایران کی حکومت گرا کر ہی انہیں چین ملے گا۔
ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی پچھلی دو لہروں کا تعلق معاشی مشکلات سے تھا۔ لیکن اس بار ایک نوجوان خاتون کی موت کا الزام اخلاقی پولیس پر عائد کیا جانا،لوگوں کے سڑکوں پر آنے کی ابتدائی وجہ تھی۔ ہفتوں چلی اس احتجاج اب تک کا ایک ریکارڈ ہے جب
1979میں اسلامی حکومت بر سر اقتدار آئی تھی۔اب تک حکومت سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کو چند دنوں میں ختم کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ تاہم اس بار ایسا نہیں ہوا اور تقریباً ایک مہینے سے زیادہ ہونے کے بعد بھی ایران میں اب بھی لوگ روزانہ سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ اس احتجاج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں جو سب سے آگے آگے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ لڑکیاں اپنے سروں سے حجاب اتار کر جلا رہی تھیں۔
ایران کے ساتھ فی الحال کئی مسائل کا سامنا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو پچھلے کچھ برس سے ایران پر نیوکلئیر ہتھیار نہ بنانے کے لئے اقتصادی پابندی لگا دی گئی۔ تاہم چند مغربی ممالک کی پہل سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں ایران نے اس بات کی حامی بھری تھی کہ وہ نیوکلئیر صرف ملک کی خوشحالی کے لئے کرے گا۔ لیکن جیسے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گدی سنبھالی اس نے سب سے پہلے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندی لگا دی۔ جس کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت دن بدن بد تر ہوتی جارہی ہے۔مغربی ممالک کا ایران کے خلاف پروپگنڈہ ایک سوچی سمجھی پلان کے تحت کئی برسوں سے جاری و ساری ہے۔جس کی ایک وجہ ایران کا اسرائیل کے خلاف سکت مؤقف اور ایران کی اسلامی حکومت کی مقبولیت ہے۔تاہم معاشی بدحالی اور اقتصادی پابندی نے کہیں نہ کہیں ایران کے نوجوانوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اس کے علاوہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل جسے ایران سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق وہ نہیں چاہتا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے۔ کیونکہ ایران اسرائیل کے بارے میں اپنے مؤقف پر ہمیشہ اٹل رہا ہے۔ایران کا لبنان اور فلسطین کے حزب اللہ گروپ کی حمایت بھی اسرائیل کے لئے ایک درد سر بنا ہو اہے۔
اگر آپ مجھ سے پوچھے گے کہ کیا مجھے عورت بنا لباس کی اچھی لگتی ہے یا کپڑے میں ملبوس تو میرا جواب تو یہی ہوگا کہ عورت ہو یا مرد مجھے دونوں لباس میں ملبوس ہی اچھے لگتے ہیں۔ تاہم مغربی ممالک نے عورتوں کو اتنا با اختیار کیا ہے کہ اب مغربی ممالک میں عورت جیسا بھی لباس پہنے اسے وہ اپنا حق سمجھتی ہے۔اس میں کوئی خرابی بھی نہیں ہے۔اس کے علاوہ فیشن ڈیزائن اور سماج میں با اختیار اور مساوات نے عورتوں کو اپنی مرضی کے لباس پہننے اور پسند کرنے کا پورا اختیار دے رکھا ہے۔ جو ایک حد تک تو بہت درست ہے کیونکہ اس سے عورتوں کو سماج میں برابری کا درجہ ملتا ہے جو کہ اس کا انسانی حقوق بھی ہے۔
ایران کی حکومت اور علماء کو اب یہ سوچناچاہیے کہ حجاب پہننے کی سختی سے زیادہ حجاب پہنناکیوں اہم ہے اس بات کو خواتین کو سمجھانا چاہیے۔ میں نے دنیا کے بیشتر مسلم ممالک، ایشیائی ممالک اور یوروپی ممالک کا سفر کیا ہے۔ جہاں میں نے زیادہ تر خواتین کو حجاب پہننا،ان کی پسند پایا ہے۔ جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر مسلم خواتین کسی کے دباؤ میں حجاب پہننا ضروری نہیں سمجھتی بلکہ وہ مذہبی اور ذاتی طور پر حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔ تاہم حجاب کے متعلق کچھ واقعات ایسے بھی رونما ہو ئے ہیں جہاں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے توڑ موڑ کر بات کو پیش کی جاتی ہے اوراسے انسانی حقوق سے جوڑ کر حجاب پہننے کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے جو کہ ایک ناقابلِ قبول بات ہے۔