”تعیناتی“ کے حوالے سے ہیجان کو بھڑکاتے ”ذہن ساز“ اور سیاستدان یہ حقیقت فراموش کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بھی ہے۔ اس ضمن میں ہماری صلاحیت اور پروگرام ہمارے نام نہاد ”دوستوں“ کی نظر میں بھی کھٹکتا رہا ہے۔وہ ہمیں ایٹمی قوت بننے سے روک نہ پائے تو انتہائی منظم انداز میں ”محققین“ کے ذریعے یہ کہانی پھیلانا شروع کردی کہ ہمارا پروگرام ”غیر محفوظ“ ہے۔ ”مذہبی انتہا پسند“ اس تک رسائی کو بے چین ہیں۔وہ اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو دنیا میں بہت تباہی پھیلے گی۔ مذکورہ تاثر کو جھٹلانے کے لئے ہمیں ایک بہت لگن سے جوابی بیانیہ تیار کرناپڑا۔ ہمارے متعصب ترین ناقد بھی اب تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا پروگرام سکیورٹی کی مختلف سطحوں کی وجہ سے دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کے ایٹمی اثاثوں کی طرح محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
مذکورہ بالا تناظر میں تعیناتی کے حوالے سے گزشتہ کئی دنوں سے جو ہیجان برپا ہے وہ دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایک ”تحریری آئین“ کے ہوتے ہوئے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم طے شدہ قواعد وضوابط کے مطابق نئے آرمی چیف کو معمول کے مطابق تعینات نہیں کرپارہا۔”میرٹ“ کی دہائی مچاتے ہوئے ہمارے مقبول ترین سیاستدان یعنی عمران خان صاحب ممکنہ تعیناتی کو متنازعہ بنارہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے دفتر سے اس ضمن میں آئی سمری پر دستخط سے پہلے صدر عارف علوی ان کی ”مشاورت“ کو رجوع کریں۔ صدر مملکت نے ان کی خواہش پر فدویانہ انداز میں عمل کیا تو کم از کم آئندہ 25دنوں تک ایک اہم ترین ریاستی ادارے کی بابت قیاس آرائیوں کا طوفان برپا رہے گا۔پاکستان کو یہ طوفان دنیا کے روبرو ”ناقص ریاست“ کی صورت پیش کرے گا۔
اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھ سادہ لوح کے جی میں یہ خواہش ابھری تھی کہ بدھ کے روز اپنے الوداعی خطاب کے دوران جنرل باجوہ صاحب مذکورہ پہلو کی جانب بھی توجہ دلاتے۔ انہوں نے تاہم پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا ذکر کرنے کو ترجیح دی۔سیاست دانوں کو یاد دلایا کہ ہمارے معاشی بحران کا حل ڈھونڈنا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس میں نہیں۔ ان سب کو باہم مل کر قابل عمل حکمت عملی تیار کرناگی۔ شہباز شریف 2018ءسے ”میثاق معیشت“ کا تقاضہ کررہے ہیں۔عمران خان صاحب مگر ”چور اور لٹیروں“ سے ہاتھ ملانے کو بھی آمادہ نہیں۔جارحانہ انداز میں اصرار کئے چلے جارہے ہیں کہ فی الفور نئے انتخاب کا انعقاد ہو۔انہیں یقین ہے کہ یہ انتخاب انہیں دو تہائی اکثریت دلوائیں گے۔ اسے بروئے کار لاتے ہوئے وہ ”صدارتی نظام“ کے احیاءکا ذکر بھی کررہے ہیں۔مصر ہیں کہ اس کے بغیر وطن عزیز کو سیاسی اور معاشی استحکام مہیا نہ ہوگا۔
خود کو انتہائی بااختیار صدر منتخب کروانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وہ ایسی حکمت عملی کا اشارہ تک نہیں دے رہے جو ہماری معیشت کو خوش حالی اور استحکام فراہم کرے۔کئی مہینوں تک امید دلاتے رہے کہ وہ اگر اقتدار میں لوٹے تو غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو لاہور کے راوی اور سندھ کے بنڈل آئی لینڈ میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کو راغب کریں گے۔ دو دن قبل انہوں نے مگر ”رئیل اسٹیٹ“ سے متعلق کاروباری افراد کو ”مافیا“ پکارا۔اس کی جگہ لینے کو نیا منصوبہ متعارف نہیں کروایا۔
حال ہی میں ریکارڈ ساز بارشوں نے سندھ اور بلوچستان کے وسیع تر علاقوں میں جو تباہی پھیلائی ہے اس نے تین کروڑ تینتیس لاکھ پاکستانیوں کو بے گھر بنادیا ہے۔عالمی ادارے تواتر سے اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ صدیوں سے ”زرعی‘ کہلاتا ہمارا خطہ غذائی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دل دہلا دینے والا انداز ہ یہ بھی ہے کہ 2050ءتک ہماری زرعی پیداوار 50فی صد تک رہ جائے گی۔عمران خان صاحب اس سنگین مسئلہ کی جانب بھی توجہ ہی نہیں دے رہے۔ان کی سوئی نئے انتخاب کے مطالبے پر اٹکی ہوئی ہے۔عمران خان صاحب جیسا قدآور رہ نما اگر غذائی بحران کو نظرانداز کرے تو باقی دنیا اس ضمن میں ہماری مدد کوکیوں مائل ہو گی۔ اس جانب ہمارے ”ذہن ساز“بھی کوئی توجہ نہیں دے رہے۔
سندھ اور بلوچستان کے 3کروڑ 33لاکھ پاکستانیوں پر نازل ہوئی مصیبتوں کو ذہن میں لاتا ہوں تو 1970ءیاد آجاتا ہے۔اس برس پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلا انتخاب ہونا تھا۔ آج کا بنگلہ دیش ان دنوں مشرقی پاکستان کہلا تا تھا۔وہاں انتخابات سے چند ہفتے قبل سائیکلون نے قیامت خیز تباہی پھیلائی۔ہمارے بنگالی بھائیوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان پر نازل ہوئی آفت کو مغربی پاکستان میں سنجیدگی سے زیر بحث نہیں لایا جارہا۔غضب ناک ہوکر وہ شیخ مجیب کی جماعت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔
ان دنوں روایتی اور سوشل میڈیا میں جو موضوعات ہیجانی انداز میں زیر بحث لائے جارہے ہیں ان پر غور کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ان کی بابت سندھ اور بلوچستان کے تین کروڑ تینتیس لاکھ افراد کیا سوچ رہے ہوں گے۔ اس تناظر میں جو خیالات میرے ذہن میں آتے ہیں انہیں بیان کرنے کی ہمت نہیں۔محض فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ پاکستان کو درپیش سنگین مسائل پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اندھی نفرت وعقید ت انتشار کو مزید بھڑکائے گی۔جس کا علاج ہمارے طاقت ور ترین ریاستی اداروں کے لئے بھی ممکن نہیں رہے گا۔ خلفشار کو بااختیار ”ثالث“ ہی قابو میں لاسکتے ہیں۔ہماری بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ صحافت سے اعلیٰ عدالتوں تک ہمارے ہاں ”ثالث“ نظر نہیں آرہے۔انہیں مختلف فریقین کے ممکنہ سرپرست ہی تصور کیا جاتا ہے۔ایسے ماحول میں کامل انتشار کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے۔ کم از کم میرے ناقص ذہن کو اس ضمن میں کوئی راہ نظر نہیں آرہی۔