کرنسی بحران: کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات واقعی بڑھ رہے ہیں؟
پاکستان کو آئندہ ماہ یعنی دسمبر کی پانچ تاریخ کو ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جو پانچ سال پہلے بین الاقوامی مارکیٹ سے قرض اٹھانے کے لیے جاری کیا گیا تھا تاہم اس قرض کی ادائیگی کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔
ان قیاس آرائیوں کو بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے کریڈٹ ڈیبٹ سویپ (سی ڈی ایس) کے بہت زیادہ بڑھنے سے تقویت ملی۔
پاکستان میں مالیاتی امور سے متعلق ریسرچ ہاؤسز اور افراد کی جانب سے سی ڈی ایس کے بڑھنے کو خطرناک قرار دیا گیا اور پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو مسترد کیا گیا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں ان خبروں کو مسترد کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کے سی ڈی ایس میں بے تحاشا اضافے کی پیشرفت کے بعد جاپانی بینک نومارا کی جانب سے پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کی رپورٹ سامنے آئی اور بینک کی جانب سے پاکستان کو ان سات ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا جو اس وقت شدید کرنسی بحران سے دوچار ہیں۔
سی ڈی ایس میں ہونے والے اضافے اور پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کے بارے میں پاکستان کے معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین تبصرہ کرتے ہیں کہ ملک کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور معاشی حالات تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔
تاہم ماہرین اگلے مہینے ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کے قرضے کی ادائیگی پر ڈیفالٹ کے امکان کو مسترد کرتے ہیں لیکن اس کے بعد مزید قرضے کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ ملک کو اس وقت کہیں سے قابل ذکر مالی امداد یا قرض نہیں مل پا رہا جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔
پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا امکان کیوں ظاہر کیا گیا؟
پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکان اور خطرے کے بارے میں خبریں اس وقت ابھریں جب بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے بانڈز پر سی ڈی ایس بہت زیادہ بڑھا۔
سی ڈی ایس دراصل بانڈز پر انشورنس پریمیئم ہوتا ہے کہ ان بانڈز میں سرمایہ کاری کو انشورنش کور حاصل ہو تاکہ ان بانڈز پر ڈیفالٹ کی صورت میں سرمایہ کاروں کو اپنی رقم واپس مل جائے۔
اس سال کے شرو ع میں سی ڈی ایس کی شرح چار سے پانچ فیصد تھی جو گزشتہ چند دن میں نوے فیصد سے اوپر چلی گئی۔
مالیاتی امور کے ماہر یوسف سعید نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے یہ شرح عمومی طور پر چار سے پانچ فیصد ہوتی تھی تاہم کچھ مہینوں سے اس میں اضافہ ظاہر ہونا شروع ہوا۔
انھوں نے کہا کہ کیونکہ پاکستان نے اگلے مہینے ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی کرنی ہے اس لیے سی ڈی ایس میں اضافے کی خبروں نے ابھرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ یقینی طور پر معاشی حالات خراب ہیں، اس لیے ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گے۔
انھوں نے کہا کہ اگلے مہینے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرضے کی ادائیگی کرنی ہے تو پھر اس کے ساتھ سی ڈی ایس کی شرح میں اضافے نے ایسی خبروں کو مزید بڑھا دیا۔
کیا پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کی خبروں کے بارے میں وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتایا کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں اور پاکستان اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اگلے مہینے ایک ارب ڈالر کے بانڈ کی ادائیگی کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اگلے مہینے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی تو پاکستان کر لے گا تاہم اس کے بعد کی صورتحال بہت خطرناک ہے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوئی ہے اور ملک کو باہر سے ڈالر بھی نہیں مل رہے جس کی وجہ سے حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے فوری طور پر ڈیفالٹ ہونے کا تو خطرہ نہیں تاہم آنے والے مہینوں میں اس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ ملک کو کہیں سے کوئی قابل ذکر فنڈ نہیں مل رہے جو ہماری بیرونی ادائیگیوں میں توازن پید ا کرسکیں۔
ماہر معیشت عمار خان نے بھی پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکان کو مسترد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ پاکستان آسانی سے کر لے گا اور اگلی ادائیگی میں ابھی کافی وقت ہے۔
انھوں نے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کے انشورنش پریمیم یعنی سی ڈی ایس بڑھنے اور اس سے ڈیفالٹ کے امکان کے بارے میں کہا کہ اس کو غلط طریقے سے لیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ خالصتاً ایک تکنیکی معاملہ ہے اور اسے کسی طور پر دیوالیہ ہونے سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
مالیاتی امور کے ماہر علی خضر نے کہا کہ سی ڈی ایس تو بڑھ گیا، جس کی وجہ سے ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ پاکستان اپنی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے تاہم فوری طور پر اگلے مہینے والی پیمنٹ پر ایسا خطرہ موجود نہیں۔
پاکستان کو درپیش کرنسی بحران کیا ہے؟
جاپانی بینک ’نومارا‘ کی جانب سے پاکستان کو دنیا کے ان سات ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے جو اس وقت کرنسی کے خطرناک بحران سے دوچار ہیں ۔
ان ملکوں میں رومانیہ، مصر، سری لنکا، ترکی، چیک ری پبلک، ہنگری اور پاکستان شامل ہیں۔ جاپانی بینک کی جانب سے کی جانے والی مشق کے مطابق اس کے لیے ایک ملک کے زرمبادلہ ذخائر، ایکسچینج ریٹ، مالی حالت اور شرح سود کو بنیاد بنایا گیا۔
بینک کے مطابق سو سےزیادہ سکور کا مطلب ہے کہ ایک ملک کو 64 فیصد تک کرنسی بحران کا سامنا ہے اور پاکستان کا اس میں سکور 120 رہا۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جن ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہو چکی ہے اور باہر سے ڈالر نہیں مل رہے تو اس کا اثر لازمی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر اور ہمارے ایکسچینج ریٹ پر پڑے گا۔
پاکستان کی کرنسی اس وقت امریکی ڈالر کے سامنے 223 پر ٹریڈ کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت 13 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہیں اور مرکزی بینک کے پاس آٹھ ارب ڈالر سے بھی کم ذخائر رہ گئے ہیں۔
عمارخان کے مطابق پاکستان میں کرنسی بحران کی بہت ساری وجوہات ہیں۔
’ملک میں اس وقت ڈالر کی قلت ہے۔ ملکی درآمدات بہت زیادہ ہیں جبکہ برآمدات سکٹر رہی ہیں جس کی وجہ سے بیرونی تجارت کے ذریعے زیادہ ڈالر باہر جار ہے ہیں اور کم ڈالر ملک میں آرہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کا منفی اثر پاکستان کے ایکسچینج ریٹ پر بھی پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔
کرنسی بحران عام پاکستانی کو کیسے متاثر کرے گا؟
پاکستان کو درپیش شدید کرنسی بحران اور اس کے عام پاکستانی پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے علی خضر نے کہا کہ اس کا اثر عام آدمی پر بہت زیادہ منفی طور پر ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ کرنسی بحران کی وجہ سے جب روپے کی قیمت کم ہوتی ہے تو اس کا اثر آمدن اور بچت پر ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایک پاکستانی کی آمدن اور بچت روپے میں ہوتی ہے اور جب روپے کی قیمت گرتی ہے تو لازمی طور پر آمدن میں کمی واقع ہوتی ہے اور بچت بھی سکڑ جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی طرح کرنسی بحران ایک عام پاکستانی کے لیے مزید مہنگائی بھی لاتا ہے۔
’پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے اور اس کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہنگا ڈالر ان درآمدات کو مہنگا کرے گا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام شہری کے لیے تیل اور غذائی چیزیں مزید مہنگی ہوں گی۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر یہ کرنسی بحران جاری رہتا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 250 روپے سے اوپر چلی جاتی ہے تو اس سے مہنگائی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔