’غاروں میں رہنے والے انسانوں‘ کی طرح کی خوراک کھانا ان لوگوں میں مقبول ہے جو اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو پتھر کے زمانے کی طرح کی خوراک کھاتے ہیں انھیں یقین ہے کہ یہ انھیں صحتمند بناتی ہیں۔
اس خوراک کو پالیو ڈائٹ کہا جاتا ہے اور اس رحجان سے مالی فائدہ اٹھانے والے اس خوراک کی بے شمار خوبیاں بیان کرتے ہیں جیسا کہ یہ جلد کو بہتر بناتی ہیں، قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے، ہاضمے کے مسائل ختم کرتی ہے اور سب سے اہم یہ آپ کا وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
لیکن آپ یہ پالیو ڈائٹ لیتے کیسے ہیں؟ اس خوراک میں پھل، سبزیاں، بنا چربی کے گوشت، مچھلی، انڈے، میوے اور اجناس شامل ہیں۔ کیونکہ اس طرح کی خوراک انسان اس وقت کھاتا تھا جب وہ شکار کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا۔
تاہم اس میں وہ خوراک نہیں، جو تقریباً دس ہزار برس پہلے اس وقت عام ہوئی تھی جب چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری اور فارمنگ کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں اناج، پھلیاں اور دودھ سے بنی اشیا شامل ہیں۔
امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی میں بشریات و عالمی صحت کے پروفیسر ہرمن پونٹزر کے مطابق یہ سب بہت مربوط لگتا ہے سوائے ایک تفصیل کے کہ یہ سچ نہیں ہے کہ انسانوں کے پاس کبھی قبل از تاریخ کی کوئی خوراک تھی۔
بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے پونٹزر کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں انسانوں نے کیا خوراک استعمال کی اس کے بارے میں بہت سی فرضی باتیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی کے بارے میں اس مفروضے کی بنیاد پر کہ اس وقت ایک قدرتی خوراک تھی بہت سے رومانوی عقائد ہیں۔‘
شکاریوں کی برادریوں کے ساتھ براہ راست کام کرنے سے سائنسدان اس قابل ہوئے کہ وہ جان سکیں کہ وہ اصل میں کیا کھاتے تھے۔
تنزانیہ کا حڈزہ قبیلہ
پروفیسر پونٹرز تنزانیہ گئے تھے تاکہ وہ وہاں کے مقامی شکاریوں کے حڈزہ قبیلے کے ساتھ رہ کر یہ جان سکیں کہ ان کی طرز زندگی کیسی ہے۔ یہ قبیلہ آج کی زندگی کے سب سے قریب ہے اور کبھی ہمارے آباؤ اجداد بھی ایسی ہی زندگی گزارتے تھے۔
فصلیں اگانے یا جانور پالنے کے بجائے، حڈزہ قبیلے کے لوگوں کو طویل مسافت کے دوران جو ملتا ہے اس پر گزارہ کرتے ہیں۔
پونٹرز یہ اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ انھوں نے گذشتہ دہائی انھیں کے ساتھ گزاری ہے اور وہ ان کی صحت اور نفسیات کے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں۔
وہ دن میں 10 کلومیٹر تک پیدل چلتے ہیں، جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں، شہد اکٹھا کرتے ہیں، جڑوں والی سبزیاں کھاتے ہیں، بیر جمع کرتے ہیں، پانی اور لکڑیاں لے جاتے ہیں۔
حڈزہ قبیلے اور دنیا کی دیگر قبائلی برادریوں سے حاصل کردہ ڈیٹا کا مطالعہ کرنے کے بعد، محقق کہتے ہیں کہ حقیقت میں ’کوئی پالیو ڈائٹ نہیں ہے‘، چونکہ شکاریوں کے پاس بہت سی خوراک ہوتی تھی۔
وہ اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ خوراک آب و ہوا، موسم اور بہت سی دوسری چیزوں کو مدنظر رکھ کر استعمال کی جاتی تھی۔
اگرچہ یہ سچ ہے کہ جنگلی زندگی میں جڑ والی سبزیوں اور بیریوں میں انسان کی آج کی خوراک کے مقابلے میں کم کیلوریز، نمک یا چکنائی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جن جنگلی قبائل کا مطالعہ کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر غذا گوشت سے بھرپور اور کم کاربوہائیڈریٹس والی نہیں ہوتیں۔ جیسا کہ پالیو غذا کے چند شوقین دعویٰ کرتے ہیں۔
پونٹزر کا کہنا ہے کہ مقبول عقیدے کے برعکس، شکاری کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور، میٹھی اور نشاستہ دار غذائیں، جڑ کی سبزیاں، شہد اور یہاں تک کہ اناج کھاتے ہیں۔
چند سو سال پہلے کے ریکارڈ موجود ہیں جن میں محققین کے ذریعہ جمع کردہ معلومات پر مشتمل اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اس قسم کے جنگلی قبائل کیا کھاتے تھے۔
پونٹرز وضاحت کرتے ہیں کہ ان معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی کوئی ایک غذا نہیں رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عموماً جنگلی یا شکاری قبائل کی غذا میں پھلوں، سبزیاں اور گوشت کا توازن ہوتا تھا لیکن یہ بہت تبدیل ہوتی رہتی تھی۔‘
ہمیں کیا چیز اپنے آباؤ اجداد کے مقابلے میں اتنا موٹا کرتی ہے؟
محقق کہتے ہیں کہ یہ ’ایک بہت ہی اہم سوال ہے‘۔ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ ہم بہت ہی زیادہ پروسیسڈ خوراک استعمال کرتے ہیں۔ ایسی غذا سے پروٹین اور فائبر نکال لیا گیا ہوتا ہے اور اس میں چینی، تیل، مصنوعی ذائقہ اور اس کو زیادہ عرصے تک محفوظ بنانے والے اجزا شامل کیے گئے ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا جسم سادہ خوراک کھانے کے لیے بنا ہے لیکن بازاروں میں بکنے والی خوراک سیدھی درختوں، زمین یا شکاریوں سے نہیں آتی۔ یعنی وہ سو فیصد قدرتی اور خالص نہیں ہوتی۔
اس نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت مند طریقے سے کھانا آسان نہیں ہے۔ پونٹزر کا کہنا ہے کہ ’میں انتہائی پروسسڈ شدہ کھانے سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن میں سو فیصد ایسا نہیں کر سکتا اور نہ ہی میں سختی سے ایسی غذا کی پابندی کرتا ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے دوسرے افراد کی طرح کبھی کبھار میرا بھی لذیذ پروسیسڈ غذا کھانے کو دل کرتا ہے۔‘