24 نومبر: ترکماں حجرت ِاکبر آئیو
زوال بادل کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی صورت نمودار نہیں ہوتا۔ افق پر چاروں طرف غبار کی ایک تہہ نظر آتی ہے جو آہستہ آہستہ سیاہ دبیز چادر کی طرح ہر سمت پھیل جاتی ہے۔ زوال زندگی کے ہر شعبے میں گراوٹ اور رسوائی کا ہمہ جہتی مظہر ہے۔ سیاسی مکالمہ ہو یا معیشت کے رنگ، صحافت کی ساکھ ہو یا درس گاہ کے آداب، گلی کوچوں کا طرز گفتار ہو یا مشترک اخلاقی اقدار، زوال، لمحہ افسوس کا ایسا زمانی پھیلائو ہے جو دن رات کی تمیز ختم کر دیتا ہے۔ زوال جوتش کی بھول چوک نہیں، اجتماعی شعور کی کوتاہ نگاہی سے جنم لیتا ہے۔ اجتماعی سفر میں ایک غلط قدم برسوں کی صحرا نوردی پر منتج ہوتا ہے۔ 24 نومبر 2022ء کی زمانی مدت تو 24 گھنٹے ہی تھی لیکن یہ آٹھ پہر قوم پر، اقبال کے لفظوں میں، ’حلقہ محشر‘ کی صورت گزرے۔ مختار صدیقی نے ایسی ہی کسی آزمائش کو نظم کیا تھا ’دونوں وقت آن ملا کرتے ہیں دم بھر کے لئے‘ اور پھر رائیگانی کی واسوخت کے رنگ میں لکھا ’نیا جیون کی نہ آ جائے کنارِ دریا‘۔ ہماری تاریخ میں ’پروجیکٹ عمران‘ نامی وقفۂ انحراف اپنے انجام کو پہنچا۔ اس آزمائش کے کیف و کم کی حکایت طویل ہے۔
آمر اپنے تام جھام کے علی الرغم ایک فانی انسان ہی تو ہوتا ہے۔ اپنے اقتدار کے جاوداں ہونے کی معصوم سی خواہش رکھتا ہے۔ گردش روز و شب میں مگر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے جہاں آمر کا مفاد اس کے حلقۂ انتخاب کے مستقل مفاد سے متصادم ہو جاتا ہے۔ ایوب خان پر یہ مرحلہ فروری 1968 میں آیا۔ یحییٰ خان کو یہ خبر 19 دسمبر 1971کو جنرل عبدالحمید نے دی۔ ضیاالحق کا جہاز 17اگست 1988 کو حادثے کا شکار ہوا لیکن انہیں ناگہانی کی سن گن مل چکی تھی۔ اواخر 2006 میں مشرف آمریت پر سات برس مکمل ہو چکے تھے۔ چیف جسٹس اور صدر مشرف کی 9 مارچ 2007 کی ملاقات میں تمثیل کا آخری حصہ شروع ہوا۔ اس میں عدلیہ تحریک، لال مسجد آپریشن، این آر او کے دبئی مذاکرات اور 3 نومبر کی ایمرجنسی پلس چار اہم موڑ تھے۔ بالآخر 29 نومبر 2007 کو مشرف نے اپنے ہاتھ کاٹ کر اشفاق کیانی کے سپرد کر دئیے۔ میثاق جمہوریت پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کئے تھے۔ قومی سیاست سے بظاہر بے دخل ان سیاسی رہنماؤں کی اکتوبر اور نومبر میں وطن واپسی سے سیاسی منظر بدل گیا۔ بینظیر کی شہادت کلیدی جمہوری قوتوں پر شب خون تھا۔ اس وحشت سے 2008 کے انتخابات کا منصوبہ بھی تلپٹ ہو گیا۔ این آر او مذاکرات کرنے والوں ہی نے این آر او کو گالی بنا دیا۔ کیری لوگر بل پر طوفان اٹھانے کے باوجود اپریل 2010میں 18ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ اس مرحلے پر جمہوریت مخالف عناصر نے ’پروجیکٹ عمران‘ کا نقشہ جمایا۔ اس کا ثبوت 2009سے 2013تک تحریک انصاف کو ممنوعہ فارن فنڈنگ کی صورت ملنے والے کروڑوں ڈالر تھے۔ تب تحریک انصاف کے پاس ایک بھی پارلیمانی نشست نہیں تھی۔ 10اکتوبر 2011سے شروع ہونے والا میمو گیٹ اسکینڈل تو 30 اکتوبر کے لاہور جلسے کا نقارہ تھا، جس میمو گیٹ اسکینڈل کی آنچ نے ملک کے منتخب صدر کو دو ہفتے تک ملک بدری پر مجبور کیا، اسے بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور اب کسی کو یہ پوچھنے کا یارا نہیں کہ محسن ملت منصور اعجاز ان دنوں کہاں ہوتے ہیں؟ یوسف رضا گیلانی کو خلاف آئین خط نہ لکھنے کی پاداش میں صرف گھر نہیں بھیجا گیا، انہیں پارلیمنٹ میں بولے ایک جملے کی پاداش میں ناقابلِ اشاعت آزمائش بھی کاٹنا پڑی۔ لاہور کے بدنام زمانہ جلسے کے بعد 30 اکتوبر سے 19 دسمبر 2011تک 6 ہفتوں میں کم از کم 15 اہم سیاستدان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ قومی سیاست کے ان جغادریوں کو 16 برس تک عمران خان کی مسیحائی خوبیاں نظر نہیں آئیں۔ مئی 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو طالبان کے ذریعے انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے باوجود حسب خواہش نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ جون 2013 میں قائم ہونے والی نواز حکومت ابتدا ہی سے ناپسندیدہ اور عارضی بندوبست قرار پائی۔ اس کے باوجود نواز حکومت نے دہشت گردی پر قابو پایا، لوڈشیڈنگ ختم کی، سی پیک منصوبہ شروع کیا۔ ملک کو فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر نکالا۔ مہینوں پر محیط دھرنے کامیاب نہیں ہوئے تو اکتوبر 2016میں ڈان لیکس کا شوشا چھوڑ کر حکومت کو مفلوج کر دیا گیا۔ پاناما لیکس پر لغو قرار پانے والی درخواست 30 اکتوبر کے پش اپ لاک ڈائون کے بعد کلیدی قومی مسئلہ بن گئی۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پاناما کیس کی ناانصافی، بھٹو شہید کے عدالتی قتل سے چھوٹی ناانصافی نہیں تھی۔ سیاسی قوتوں کی داخلی کمزوریوں سے قطعٔ نظر، فروری 2018 سے جولائی 2018 تک قوم کے ساتھ کی گئی سنگین زیادتی کا سیاسی اور معاشی تاوان مدتوں ادا کرنا پڑے گا۔ قومی تائید کی حامل سیاسی قوتوں کو کھلی دھاندلی سے شکست دے کر جولائی 2018 میں جو ’’مسیحا صفت‘‘ ٹولہ اقتدار میں لایا گیا اس نے روز اول ہی سے واضح کر دیا کہ اس کے پاس قوم کے لئے کوئی سیاسی نقشہ ہے اور نہ معاشی منصوبہ۔ ماضی میں پس پردہ رہ کر قومی وسائل لوٹنے والا معاشی مافیا براہ راست کابینہ میں آ بیٹھا۔ سی پیک کی نیا ڈوب گئی۔ ڈالر 115 سے 190 روپے تک جا پہنچا۔ صحافت کی ساکھ تباہ ہو گئی۔ سیاسی مکالمہ مقابلہ دشنام قرار پایا۔ دوست ممالک نے منہ پھیر لیا۔ احتساب کے بغدادی ڈنڈے نے انتظامیہ کو بے دست و پا کر دیا۔ ایک طرف ملک معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اور سفارتی تنہائی سے دو چار تھا تو دوسری طرف صاحب صدق و امانت کی آرزوئیں صدارتی نظام کے راستے 2028کی خبر لا رہی تھیں۔ اکتوبر 2021میں شروع ہونے والے تماشے نے تحریک عدم اعتماد کی گھاٹی سے گزرتے ہوئے 24 نومبر 2022 تک کا سفر طے کیا۔ قوم نے ’پروجیکٹ عمران‘ کی آزمائش دیکھ لی۔ ہم ایک نئے عہد کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہم نے اتنے چرکے اٹھائے ہیں کہ ایمن کلیان کی بندش ’نیا باندھو رے کنارِ دریا‘کی ہمت نہیں رہی۔ ہمیں تو سجاد بلوچ کا شعر زیادہ حسب حال معلوم ہوتا ہے۔
کسے معلوم اب پردے کے پیچھے چل رہا ہے کیا
کسے معلوم اب آتی ہے آگے کون سی پتلی گلی