منتخب تحریریں

پروجیکٹ عمران: وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

Share

نومبر کا آخری ہفتہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ پوری قوم قریب ایک برس سے مسلح افواج میں چوٹی کے عہدوں پر نئی تقرریوں کے ہیجان میں مبتلا تھی۔ معمول کے ایک انتظامی اقدام پر ایسی اٹھا پٹخ اور کھینچا تانی بذات خود دنیا میں ہمارے قومی وقار کے لئے نقصان دہ تھی۔ خیر گزری کہ گزشتہ ایک ہفتے میں گویا ہمیں انتشار کے کنارے سے واپس کھینچ لیا گیا۔ 23 نومبر کو یوم شہدا کی تقریب میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک اہم خطاب کیا جس سے آنے والے مناظر کے خد و خال واضح ہو گئے۔ 24 نومبر کو وزیر اعظم شہباز شریف نے لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین اور لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ دونوں اصحاب سینئر ترین ہونے کے علاوہ اعلیٰ پیشہ ورانہ اہلیت کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔ صدر مملکت کی طرف سے ان تقرریوں کی رسمی توثیق کے بعد صرف یہ دیکھنا باقی تھا کہ عمران خان 26 نومبر کو اپنے لانگ مارچ میں کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں؟ راولپنڈی میں اپنے حامیوں کے اجتماع میں تحریک انصاف کے سربراہ کا خطاب توقع کے عین مطابق کسی اہم سیاسی پیش رفت سے قطعی طور پر خالی تھا۔ محترم رہنما نے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے لئے اپنی متعلقہ قیادت سے مشاورت کا اعلان تو کیا لیکن یہ سمجھنا خام خیالی ہوگی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت چار اسمبلیوں میں ان کے وزرائے اعلیٰ اس اقدام پر تیار ہوں گے خاص طور پر ایسی صورت میں کہ خود قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے سو سے زائد ارکان کے استعفے گزشتہ سات ماہ سے رنجک چاٹ رہے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کا امکان ختم ہو چکا۔ قومی سیاست میں آئندہ مہینے معمول کی طرف لوٹنے کا مرحلہ ہوں گے۔ تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک بنیادی سیاسی تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ سات دہائیوں میں فوج کی سیاست میں مداخلت کے غیر آئینی ہونے کا اعتراف کیا اور کھلے لفظوں میں بتایا کہ فوج نے فروری 2021 میں سیاست سے لاتعلقی کا فیصلہ کیا تھا۔ لمحہ موجود میں اسی نکتے کے کیف و کم پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عملی طور پر ملک کے طاقتور ترین عہدیدار کی طرف سے یہ اعلان قومی تاریخ کی ازسرنو ترتیب کے مترادف ہے۔ فی الحال اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ فوج کی سیاست سے لاتعلقی قومی سلامتی کے ادارے کا صوابدیدی اختیار ہے یا دستور کا دو ٹوک تقاضا؟ فوج کے سربراہ کی طرف سے غالباً اتنا ہی کہا جا سکتا تھا جتنا جنرل صاحب نے فرما دیا۔ تری آواز مکے اور مدینے! آپ جانتے ہیں کہ درویش کو کوئی سخن گسترانہ بات کہنا ہو تو شعر کی اوٹ لیتا ہے۔ 70 برس قبل ظہیر کاشمیری نے لکھا تھا، ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب / ہمارے بعد اندھیرا نہیں، اجالا ہے۔ اس رجائیت سے سفر شروع کرنے والی قوم آج اس مقام پر پہنچی ہے کہ ہم عصر اردو شعر کی ایک اہم آواز سجاد بلوچ نے لکھا، ’کل اس جگہ پہ ہوا راکھ اڑا رہی ہو گی / ہمارے بیچ یہ جلتا الائو آخری ہے‘۔ اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’خدا ناکردہ کسی قوم پہ یہ وقت آئے / کہ خواب دفن رہیں شاعروں کے سینے میں‘۔

جنرل صاحب نے سات عشروں کی تاریخ پر اپنی رائے دی ہے۔ گویا جمہوری قوتوں کے اس مؤقف کو درست تسلیم کر لیا گیا کہ قوم کی سیاسی شیرازہ بندی، وفاقی اکائیوں میں باہم اعتماد، معاشی ترقی، عوام کے معیار زندگی میں مطلوب بہتری اور تمدنی ارتقا جیسے بنیادی اشاریوں میں اجتماعی ناکامی کے ڈانڈے سیاست میں فوج کی مداخلت سے ملتے ہیں۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ مشرقی پاکستان میں ہمیں فوجی شکست نہیں ہوئی بلکہ یہ سیاسی ناکامی تھی۔ یہ جملہ دراصل جنوری 1972 میں صدر بھٹو نے حسینی والا سیکٹر میں فوجی جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ادا کیا تھا۔ بھٹو صاحب تب اپنے لفظوں میں ’ٹوٹی ہوئی قوم کی کرچیاں چن رہے تھے‘۔ آج یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سیاسی ناکامی ہی سہی لیکن تب ربع صدی سے سیاست کون کر رہا تھا؟ عبدالغفار خان اور حسین شہید سہروردی تو جمہوری حقوق مانگنے کی پاداش میں جیلوں میں تھے۔ حسن ناصر تو لاہور قلعے کے عقوبت خانے میں تھا۔ مشرقی پاکستان کے سیاسی معاملات تو 13 برس سے جنرل رائو فرمان علی چلا رہے تھے۔ ملک کا دو لخت ہونا بھلے فوجی شکست نہ ہو لیکن یحییٰ خان کے صدارتی عزائم کو کیسے فراموش کیا جائے جنہوں نے ایک طرف لیگل فریم ورک آرڈر میں منتخب نمائندوں پر 120 روز میں دستور سازی کی تلوار لٹکا دی، دوسری طرف اس ’آئین‘ کی پس پردہ تدوین کرتے رہے جو 20 دسمبر 1971 کو نافذ کرنا مقصود تھا۔ یہاں تاریخ کے زخم کھرچنا مقصود نہیں۔ یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی فوج بھی ہماری ہے۔ اگر فوج نے سیاسی دستکاری سے گریز کا ارادہ کیا ہے تو اس کا خیرمقدم کرنا چاہئے تاہم ’وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں‘۔ 14 مئی 2006 کو ہماری دو اہم سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں یہی مطالبہ کیا تھا۔ اگر اب عسکری قیادت بھی اس نتیجے پر پہنچی ہے تو اختیار کے اس جمہوری بندوبست کو ایک وسیع تر قومی اتفاق رائے کی ادارہ جاتی شکل دینا ہو گی۔ جمہوری سیاست سے برگشتگی کا بیانیہ 70 برس کی کاوش سے ہماری چار نسلوں کی فکری بنت میں پرویا گیا ہے۔ اس دوران سیاست، معیشت اور صحافت سے لے کر تعلیم تک، ہر شعبہ زندگی کو ایک کجرو زاویہ بخشا گیا ہے۔ فوج کی حب الوطنی ہمیشہ شک و شبے سے بالا رہی ہے۔ اختلاف محض یہ رہا کہ سیاسی تربیت نہ ہونے کے باعث فوج قومی پالیسی سازی کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس سمت میں عملی پیش رفت کے طور پر درخواست ہے کہ ملک میں لاپتہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بازیاب کیا جائے۔ کسی نے اگرکوئی جرم کیا ہے تو عدالت کو اس کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ یہ ایک قدم نئی سمت میں قومی اعتماد سازی کا پہلا امتحان ہو گا۔