سر اور دھڑ کی رکھوالی کے قصے
عین اس لمحے جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، راولپنڈی میں فوجی کمان کی چھڑی ہاتھ بدل رہی ہے۔ یہ مرحلہ ہم نے بارہا دیکھ رکھا ہے اور ہر مرتبہ ایک نئے رنگ میں۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ نئے کماندار کی تعیناتی سے قبل ایک ہزار میل کے فاصلے پر دومختلف تقریبات میں دستخط ہونے کی شرمساری اٹھانا پڑی۔ پہلی تقریب رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں ہوئی اور چار روز بعد دوسری تقریب اسلام آباد کے ایوان صدر میں منعقد ہوئی۔ اس اجتماعی ندامت کے باوجود نئے کماندار گل حسن محض تین ماہ اپنے عہدے پر قائم رہ سکے۔ 1988، 1993اور 1998 میں ایسی کسی تقریب کی صورت ہی پیدا نہ ہو سکی۔ 28 نومبر 2007کو کمان کی تبدیلی میں تاریخ کی چتون پر جبر کی لکیریں نمایاں تھیں۔ ہم خاک کے پتلے ان تمام مواقع پر دم سادھے تماشائی تھے، زرد پتوں کے گرنے اور نئی کونپلوں کی نمود سے قطعی بے دخل۔ آج بھی مستقبل کی تحریر وقت کے بیجوں میں بند ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ سیاسی پانیوں میں دیرینہ شوریدگی میں قدرے سکون کے آثار نمودار ہو سکیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بے یقینی کی حالیہ آزمائش کے بعد ایک نئے بحران کا شکار ہو جائیں۔ اگر یاں کے سیاہ و سفید میں ہمارے اختیار کا یہی عالم ہے تو کیوں نہ ہم ان قصے کہانیوں کی طرف لوٹ جائیں جو ہمارے پرکھوں کی میراث ہیں۔ عبداللہ حسین نے کہا تھا ’کہانیوں میں وہ باتیں تو ہوتی ہی ہیں جو بیان کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں‘۔
مہاراجہ بکرماجیت کا زریں عہد پہلی صدی عیسوی کی ابتدا میں قریب چار دہائیوں پر پھیلا ہوا تھا۔ اس دوران سنسکرت زبان میں کتھا سرت ساگر کی کہانیاں تخلیق ہوئیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اسلامی تاریخ کے تہذیبی عروج پر آٹھویں صدی عیسوی میں الف لیلیٰ کے عنوان سے شہریار کے جنون اور شہرزاد کی داستان گوئی نے جنم لیا تھا۔ کتھا سرت ساگر سے بیتال پچیسی کی کہانیاں برآمد ہوئیں۔ ان پچیس کہانیوں کو اٹھارہویں صدی کے مغل حکمران ناصرالدین محمد شاہ کے عہد میں برج بھاشا میں منتقل کیا گیا۔ 19ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فورٹ ولیم کالج کلکتہ قائم کیا تو بیتال پچیسی دیوناگری اور اردو رسم الخط میں ترجمہ ہونے والی ابتدائی کتابوں میں شامل تھی۔ اردو ترجمہ منشی مظہر علی ولا نے کیا تھا۔ بیتال پچیسی میں کل پچیس کہانیاں ہیں جو بیتال نامی ایک بھوت راجہ بکرماجیت کو سناتا ہے۔ روایت کے مطابق بیتال کی لاش ایک پیڑ سے لٹک رہی تھی۔ بکرماجیت اسے پھندے سے اتار کر کندھے پر ڈال لیتا ہے اور ایک جوگی کے پاس لے جانا چاہتا ہے۔ بیتال شرط رکھتا ہے کہ اگر بکرما نے راستے میں ایک لفظ بھی بولا تو وہ دوبارہ پیڑ سے جا لٹکے گا۔ چوبیس کہانیوں میں بکرماجیت کا تجسس اس کی خاموشی پر غالب آتا ہے لیکن پچیسویں کہانی ایسی ہے کہ بکرماجیت کے سوال کا جواب بیتال کے پاس بھی نہیں تھا۔ سوال یہ اٹھا کہ بیتال پچیسی میں وہ کون سی کہانی تھی جس پر بیتال بھی لاجواب ہو گیا۔ جواب تو ہم بھی نہیں جانتے لیکن بیتال پچیسی میں ایک کہانی ایسی ضرور موجود ہے جس نے دو سو برس سے دنیا بھر کے کہانی کاروں کو دبدھا میں ڈال رکھا ہے۔ یہ دھوبی کے ایک لڑکے کی کہانی ہے جس نے اپنے دوست کی بیوی سے محبت ہونے پر احساس گناہ میں دیوی کے سامنے خود اپنا ہی سر کاٹ ڈالا۔ دوست کو خبر ہوئی تو اس نے دوست کی وضع داری سے متاثر ہو کر اپنا سر کاٹ ڈالا۔ جب اس عورت کو اپنے چاہنے والوں کی خبر پہنچی تو اس نے چاہا کہ وہ بھی خود کو ختم کر لے لیکن اس موقع پر دیوی نے مداخلت کی اور عورت کو حکم دیا کہ وہ دونوں دوستوں کے سر ان کے دھڑ سے جوڑ دے اور وہ زندہ ہو جائیں گے۔ عورت نے دیوی کے حکم کی تعمیل کی مگر گھبراہٹ میں ایک کا سر دوسرے کے دھڑ پہ لگا دیا۔ یہاں سے کہانی میں یہ نفسیاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے کہ وہ خاتون دراصل کس کی بیوی ہے۔ سر شوہر کا ہے اور دھڑ چاہنے والے کا۔ دوسری طرف سر عاشق کا ہے اور دھڑ شوہر کا ہے۔ 20ویں صدی میں ہندو دیومالا کے ڈچ اسکالر Johannes Buitenen نے Tales of Ancient India مرتب کرتے ہوئے بتایا کہ بیتال پچیسی کی اس کہانی نے نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب Thomas Mann کو اس قدر متاثر کیا کہ اس نے 1940 میں The Transposed Heads کے عنوان سے ایک ناولٹ لکھا۔ یاد رہے کہ 1933میں ہٹلر کی نازی حکومت قائم ہونے کے بعد تھامس مان سوئٹزر لینڈ چلا گیا تھا اور 1939 میں عالمی جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ منتقل ہو گیا۔ اسے فاشزم کے خلاف تمدنی بیانیہ مرتب کرنے والے جلاوطن جرمن ادیبوں میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ تھامس مان کا بنیادی موقف یہ تھا کہ یورپ کی تہذیبی روایت اور فسطائی نظریات میں بنیادی تضاد پایا جاتا ہے۔ جس سے یورپ میں شناخت کے بحران نے جنم لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ تھامس مان نے بیتال پچیسی کی اس کہانی کو اپنے عہد کے تناظر میں بیان کرنا مناسب سمجھا۔ نصف صدی بعد 80ء کی دہائی میں انتظار حسین نے ’نرناری‘ کے عنوان سے جو شاہکار افسانہ لکھا وہ بیتال پچیسی کی اسی کہانی سے ماخوذ تھا۔ انتظار حسین نے بھی ہمارے قومی تناظر میں شناخت کا بحران ہی بیان کیا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آج یہ طولانی قصہ کیوں بیان کیا۔ جہاں تھامس مان اور انتظار حسین حکایت کا سہارا لیتے ہیں، درویش اپنی قوم کے سر اور دھڑ میں نمودار ہونے والی خلیج کیسے بیان کرے۔ افغان مصنف تمیم انصاری کی کتاب Destiny Disrupted: A History of the World Through Islamic Eyes البتہ تجویز کرتا ہوں۔ اسی مضمون کا احاطہ کرتا عشرت آفرین کا ایک شعر سن لیجئے۔
بجرے دریا پار خزانے اپنے ڈھو لے جاتے ہیں
سر اور دھڑ کی جدا جدا اب کے رکھوالی بھیجو نا!