منتخب تحریریں

مسائل کی سنگینی کا ہمیں کماحقہ ادراک نہیں 

Share

داستانوں میں کمزور اور بے کس افراد کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ جابر سلطانوں کے عروج اقتدار کے دنوں میں سرجھکائے ہوئے بھی وقتاََ فوقتاََ چند پتھر جمع کرتے رہتے ہیں۔بے تابی سے منتظر رہتے ہیں کہ طاقت کی حتمی علامت بنا شخص کسی کھائی یا کنوئیں میں گرجائے۔اگر ان کی تمنا کسی روز عملی شکل اختیار کرلے تو کھائی یا کنوئیں میں گرے شخص کی مدد کے بجائے اپنی جیب میں جمع ہوئے پتھر مشکل میں گھرے فرد پر اچھالنا شروع ہوجاتے ہیں۔

دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے طاقت ور لوگوں کے عروج اقتدار میں ذاتی طورپر اکثر میں نے ذلت ورسوائی ہی برداشت کی ہے۔کامل بے روزگاری کے طویل ایام بھی بارہا بھگتے۔ داستانوں میں بیان کئے بے کسوں کی طرح تاہم پتھر جمع کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔انگریزی کے اس محاورے سے رانجھا راضی رکھا جو مصر رہتا ہے کہ ماضی کا اسیر ہونے کے بجائے آگے بڑھنے کی عادت اپنائی جائے۔ پاکستان جیسے ممالک میں قوت واختیار کی حتمی علامتیں اگرچہ اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد بھی پرسکون زندگی گزارتی ہیں۔ایوب خان کے چلے جانے کے چند برس بعد بلکہ ہم نے ٹرکوں پر ان کی تصویر کے نیچے ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“ لکھا ہوا دیکھا۔ایک وزیر اعظم کو چٹھی نہ لکھنے کی پاداش میں نااہل قرار دینے والے افتخار چودھری صاحب جنرل مشرف کو نومبر2007ءکے دن لگائی ”ایمرجنسی پلس“ کی وجہ سے عدالتی کٹہرے میں رگیدنا چاہ رہے تھے۔ جنرل صاحب کا بھرم ووقار مگر ان کے ادارے نے برقرار رکھا۔جنرل یحییٰ خان بھی سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار ہرگز نہیں ٹھہرائے گئے تھے۔یہ الزام اس دور کے سیاستدانوں کے کاندھوں پر سرکادیا گیا ہے۔ان میں سے ایک یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو بالآخر جنرل ضیاءکے لگائے مارشل لاءکے دوران پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا۔

قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد جسٹس منیر نے ”نظریہ¿ ضرورت“ نامی ترکیب دریافت کی تھی۔اس ترکیب نے ہمارے ہر فوجی آمر کے لگائے مارشل لاءکو آئینی اور قانونی جواز فراہم کیا۔ کسی سیاستدان کو اقتدار سے نکالنے میں اعلیٰ عدلیہ اکثر کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ہم ایسے منصفوں کو تاہم اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔احتراماََ انہیں ”بابارحمتے“ پکارتے ہیں۔رواں برس کے اپریل میں اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب مذکورہ روایت کو توڑنے کی خواہش میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ ان کے بیانات کا مگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تووہ درحقیقت اعلیٰ عدالتوں کو اپنا ”تاریخی کردار“ ادا کرنے کو اُکساتے محسوس ہوتے ہیں۔”چور ، لٹیروں اور طاقت ور افراد“ کو وہ عدالتی کمک سے گھیرنا چاہ رہے ہیں۔ان کی خواہش بارآور نہ ہوئی تو فوری انتخاب کے لئے دباﺅ بڑھانا شروع ہوگئے۔یہ تصور کرنے میں شاید وہ اتنے غلط نہیں کہ تازہ انتخاب انہیں دوتہائی اکثریت سے اقتدارمیں واپس لائیں گے۔اس کے بعد وہ خود ہی سب سے حساب ”برابر“ کرلیں گے۔

1997ءمیں تاہم نواز شریف صاحب ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ اقتدار میں واپس لوٹے تھے۔ اقتدار میں لیکن چند ہی ماہ گزارپائے۔ بالآخر اکتوبر 1999ءہوا اور انہیں دس برس تک پھیلی جلاوطنی سے دو چار ہونا پڑا۔ربّ کریم عمران خان صاحب کو ایسے انجام سے محفوظ رکھے۔ان کی حکومت کو ”سیم پیج“ کی قوت سے مالا مال کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ یہ کالم لکھنے کے روز کمان نئے آرمی چیف کے سپرد کرچکے ہیں۔دیکھنا ہوگا کہ باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کریں گے۔گزشتہ چند مہینوں سے ان کی صحافیوں کے ساتھ ہوئی ”آف دی ریکارڈ“ ملاقاتوں کے دوران وہ کئی واقعات سناتے ہوئے باجوہ صاحب کے مبینہ طورپر ”گھمنڈی“ رویے کی بابت شکوہ کناں رہے ہیں۔ہوسکتا ہے ان میں سے چند واقعات اب وہ عوام کو بھی بتانا شروع ہوجائیں۔ باجوہ صاحب کو اس کی وجہ سے براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔طاقتور ریاستی اداروں میں بیٹھے کئی لوگ مگر ”محتاط“ ہوجائیں گے۔عمران خان صاحب کے ناز اٹھانے سے قبل سو بار سوچیں گے۔

باجوہ صاحب کی رخصت سے بہرحال ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ذاتی طورپر میں فقط یہ دیکھنے کا متمنی ہوں کہ ان کے متعارف کردہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والے ریاستی بندوبست کا خلوص سے جائزہ لیتے ہوئے ہم بحیثیت قوم کوئی نئی اور مثبت راہ ڈھونڈ پائیں گے یا نہیں۔پاکستان کے معاشی مسائل سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں جوکساد بازاری نمودار ہوئی ہے اس کے اثرات ان مسائل کو مزید گھمبیر بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری بدنصیبی یہ بھی ہوئی کہ مون سون کی غیر معمولی بارشوں نے سندھ اور بلوچستان کے تین کروڑ تینتیس لاکھ باسیوں کو بدحال بنادیا ہے۔صدیوں سے ”زرعی“ کہلاتا خطہ اب غذائی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مسائل کی سنگینی کا مگر ہمیں کماحقہ ادراک نہیں۔ہمارے شہری متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد عمران خان صاحب کے بیانیے کی اسیر بن چکی ہے۔ان کی جانب سے دی ”اگلی سرپرائز“ کی منتظر ہے۔دریں اثناءمذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھری ”دہشت گردی“ ہمارے کئی علاقوں میں ایک بار پھر نمودار ہونے کو انگڑائی لے رہی ہے۔اس کی بابت روایتی اور سوشل میڈیا میں لیکن کماحقہ گفتگو نہیں ہورہی۔ بہتر یہی ہوگا کہ کھلے اذہان کے ساتھ مذکورہ مسائل کے بارے میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ریاستی اداروں کی جانب سے ہمیں ”سیدھی راہ“ پر چلانے کے تمام تجربات ابھی تک ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کی اجتماعی بصیرت پر لہٰذا اعتماد کریں اور روشن مستقبل کے راستے تلاش کریں۔