ہیڈلائن

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سامنے پانچ بڑے چیلنجز کیا ہوں گے؟

Share

29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے تعینات ہونے والے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر پاکستان کی بری فوج کی کمان سنبھال چکے ہیں۔

پاکستان کے مختلف حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ بری فوج کے نئے سربراہ کے سامنے عہدہ سنبھال لینے کے بعد پانچ اہم ترین چیلنجز کیا ہوں گے؟

متنازع کردار سے آئینی کردار کی طرف منتقلی

پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اور اس کا آئین فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا لیکن قانونی حدود کے برعکس فوج کی تاریخ مارشل لا، بالواسطہ مداخلت اور پس پردہ سیاسی انجینیئرنگ کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔

سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ سال فروری میں عسکری قیادت نے بڑے غور و خوض کے بعد اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ ادارہ آئندہ سیاسی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم (فوج) اس پر سختی سے کاربند ہیں اور رہیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں حیرت ہے کہ قوم کے لیے قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان کی فوج کو اکثر تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے اور پھر جنرل باجوہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ فوج کے 70 سال کے سیاسی کردار کی وجہ سے ہے جس کا انھوں نے اعتراف کیا کہ یہ ’غیر آئینی‘ تھا۔

قمر جاوید باجوہ

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئے آرمی چیف کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ فوج کو اس کی روایتی متنازع کردار سے آئینی کردار کی طرف کیسے منتقل کریں گے۔

ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ متنازع کردار سے آئینی کردار کی طرف منتقلی کے حوالے سے دو جہتیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک تو فوج کے اعلیٰ حکام کا سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنانا اور اس کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہے۔ اس پر عملدرآمد کا فوج اعادہ کر رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوج مکمل طور پر سیاست سے الگ رہ سکتی ہے؟

ڈاکٹر رضوی کے خیال میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ ان کے مطابق اس معاملے کی دوسری جہت ہے اس کے کارپوریٹ مفادات، جو کہ اب کافی بڑھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سیاسی طاقت اپنے پاس رکھنا فوج کی مجبوری بن چکی ہے تاکہ وہ اپنے مالی مفادات کا تحفظ کر سکے۔

انھوں نے کہا کہ لہٰذا فوج سے مکمل طور پر غیر جانبدارانہ کردار کی توقع رکھنا غلطی ہو گی تاہم اگر فوج سیاست دانوں کو مائیکرو مینیج کرنا بند کر دے اور ملک میں شفاف انتخابات ہونے دے تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔

حسن عسکری رضوی کے خیال میں تبدیلی ایک بتدریج عمل ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے نئے آرمی چیف کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان کی قیادت میں فوج کا ادارہ اس عہد پر قائم رہے جو اس نے کیا ہے۔

قمر جاوید باجوہ

تقسیم اور تنقید

فوج کے خلاف چیئرمین عمران خان کی حالیہ بیان بازی اور موجودہ حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے خلاف ان کی ایک سخت مہم کی وجہ سے سیاسی تقسیم بھی اس وقت عروج پر ہے۔

عوام ناراض اور رائے عامہ دو انتہاوں پر بٹی ہوئی ہے، بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات اور عمران خان کی طرف سے فوج پر امریکہ کے دباؤ پر ان کی حکومت گرانے کے الزام نے صورتحال کو اور گھمبیر کر دیا ہے۔

عمران خان نے فوج پر جس طرح سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تنقید کی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ عمران خان نے فوج کے خلاف جو بیانیہ بنایا ہے اس کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوج کو اس بحران سے نکالنا نئے تعینات ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہو گا۔

صحافی اعزاز سید کے مطابق عمران خان کے حامی جنرل سید عاصم منیر کو کھلم کھلا نشانہ بناتے رہے ہیں اوران کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

’اب نظریں جنرل عاصم نصیر پر ہوں گی کہ وہ خود کو کس طرح آگے بڑھائیں گے، کہ جس کی وجہ سے ان پر یہ الزام نہ لگے کہ فوج کا ادارہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ یا دوسری کے خلاف کھڑا نظر آئے۔‘

عمران خان اس وقت پاکستانی سیاست کا سب سے اہم مہرہ بن چکے ہیں، وہ مستقبل میں وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں جس کے مطلب ہے کہ جنرل عاصم منیر کو ان کے ساتھ دوبارہ کام کرنا پڑ سکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سید عاصم منیر کی بھی عمران خان کے ساتھ تاریخ ہے۔ انھیں مبینہ طور پر عمران خان کے اصرار پر بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی اپنی تقرری کے آٹھ ماہ بعد ہی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ دورانیہ کسی بھی ڈی جی آئی ایس آئی کا مختصرترین دورانیہ مانا جاتا ہے تاہم عمران خان نے کبھی اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

ڈاکٹر حسن عسکری کا خیال ہے کہ عمران خان کا واحد مطالبہ قبل از وقت اور شفاف انتخابات ہیں اور فوج کے سیاست سے دور رہنے کے عہد کے باوجود اگر عمران دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوگئے تو ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے نئے آرمی چیف موجودہ حکومت کو جلد انتخابات کی ایڈوائس دیتے ہیں، لیکن ادارے کو کسی اور تنازع میں لائے بغیر اس صورتحال سے محفوظ طریقے سے نکلنا اور توازن برقرار رکھنا نئے سربراہ کے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہو گا۔

عمران خان

امیج اور مورال کی بحالی

پاکستانی فوج اپنی مؤثر امیج بلڈنگ کے لیے جانی جاتی ہے۔ گذشتہ چند برس میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ارتقا اور توسیع اور میڈیا پر اس کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

آئی ایس پی آر نے فوج کی اس امیج بلڈنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے لیے بے پناہ وسائل خرچ ہوئے ہیں تاہم پچھلے چند ماہ میں پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز اور اس سے ہمدردی رکھنے والوں کی سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم نے ادارے کے امیج کو کافی داغدار کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مسلسل تنقید اور فوج مخالف سیاسی بیانیے نے فوج کے اندر مورال کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیمیں کھل کر عمران خان کی حمایت بھی کرتی رہی ہیں اور جنرل باجوہ پر کھل کر تنقید کر رہی ہیں۔

اعزاز سید کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں فوج کے اندار بے چینی کو ختم کرنا، ہم آہنگی کو بہتر بنانا اور فوج کے مورال اور امیج کی بحالی نئے فوجی سربراہ کے لیے کافی اہم ہوگی۔

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلسل تنقید ادارے کو اندر سے نقصان پہنچا رہی ہے اور چونکہ فوج صرف اپنے لوگوں کی عقیدت اور احترم پر ہی پھلتی پھولتی ہے، اس لیے اس وقت ادارے کے اندراس پریشانی کو ختم کرنا نئے فوجی سربراہ کی ترجیح ہو گا۔

پاکستانی فوج

دفاع

اعزاز سید کے مطابق، جنرل عاصم منیر کے لیے مسلسل بدلتے ہوئے خطرات کے ماحول میں پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانا بھی بڑا چیلنج رہے گا۔

پہلے پاکستان کی سکیورٹی کا محور صرف انڈیا تھا تاہم اب افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد بھی کافی حساس ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان متحرک ہوئی ہے اور اس کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔

مبصرین کی رائے ہے کہ پاکستان اس وقت کئی اندرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی اطلاعات ہیں اور ملک پر مذہبی انتہاپسندی کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔

بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور ایسی صورت میں سرحدوں کے اندر شدت پسندی سے نمٹنا بھی نئے آرمی چیف کے لیے اہم ہو گا۔

سرحد

انسانی حقوق سے متعلق الزامات

پاکستان کی فوج بلوچستان میں شورش، خیبرپختونخوا اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی سے لڑتی رہی ہے۔

کئی قربانیوں کے باوجود اس پر خاص طور سے لاپتہ افراد کے حوالے سے کافی تنقید ہوتی رہی ہے۔

فوج پر مسنگ پرسنز اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف مقدمات بنوانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

فوج کو کس طرح سے ان معاملات پر پالیسی کو آگے بڑھائے گی کہ اس پر تنقید میں کمی آ سکے اور عالمی سطح پرا س کا امیج اور بہتر ہو سکے، یہ بھی ایک چیلنج رہے گا۔

صحافی اعزار سید کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر ایک بھاری ایجنڈہ لے کر آ رہے ہیں، مگر ان سبھی معاملوں کو ایک ایک کر کے ڈیل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔