ہم ہونٹوں کا بوسہ کیوں لیتے ہیں اور یہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
رومانوی فلموں نے بوسے کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے یا پھر یہ واقعی ایک اہم طریقہ ہے جس سے ہم جان سکتے ہیں کہ کیا ہم جس کو چاہتے ہیں وہی ہماری اصل محبت ہے؟
جو بھی ہو، پہلا بوسہ ہمیشہ سے ہی نہایت اہم رہا ہے۔ لیکن بوسہ لینا اتنا خاص کیوں ہے اور انسان ایسا کیوں کرتے ہیں؟
ایک نظریہ یہ ہے کہ ہونٹوں کو چھونے یا ان کا بوسہ لینے کا رواج انسانی فطرت میں شامل ہے۔
اس نظریے کے تحت گمان کیا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ پینے کے بعد سے ہی انسانی ہونٹ مثبت رویوں سے جڑ جاتے ہیں۔
ایک اور تجویز بھی ہے جو شاید بہت خوشگوار نہیں ہے کہ ہونٹ سے ہونٹ کا بوسہ لینے کا رواج اس لیے پڑا کیوں کہ انسان کے ارتقائی ماضی میں مائیں خوراک کو چبا کر بچوں کے منھ میں ڈالتی تھیں۔
اس عمل کو ’پری میسٹیکیشن فوڈ ٹرانسفر‘ کہا جاتا ہے جس میں نوزائیدہ بچے کو ایسی خوراک دی جاتی ہے جو اس کو چبانی نہیں پڑتی اور باآسانی ہضم ہو سکتی ہے۔ یہ رواج اب بھی بندروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
خوش قسمتی سے انسانوں میں اب ایسا نہیں ہوتا کیوںکہ سائنس کی ترقی کے ساتھ اب ہمارے پاس بچوں کو دینے کے لیے نرم خوارک دستیاب ہے۔
ایک دوسری اہم وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہمارے ہونٹ جسم کا ایک انتہائی حساس حصہ ہوتے ہیں۔ اور یہ ان چند حساس حصوں میں شامل ہے جن کو کپڑوں سے ڈھانکا نہیں جاتا۔
اس بارے میں ایک دلچسپ نظریہ سامنے آیا ہے۔
اینتھروپولوجسٹ ولیم جانکویاک کا کہنا ہے کہ ’ہم جتنے زیادہ کپڑے پہنتے ہیں، بوسہ لینے کی فریکوئنسی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے جبکہ دوسری جانب کم کپڑوں کے ساتھ یہ فریکوئنسی کم ہو جاتی ہے۔‘
’ایک چیز جو الگ ہے وہ یہ ہے کہ آج بھی ان قدیم گروہوں اور کمیونٹیوں میں جہاں شکار کا رواج ہے اور لوگ کم کپڑے پہنتے ہیں، اُن میں ہمیں بوسہ لینے کی مثال نہیں ملتی۔‘
’دنیا کی باقی تمام جگہوں پر جہاں شکاری گروہ پائے جاتے ہیں، وہ کپڑے نہیں پہنتے۔ یعنی وہ جسم کے دوسرے حساس مقامات کا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن جب آپ زیادہ کپڑے پہن لیتے ہیں تو پھر آپ کے پاس حساس تجربے کے لیے انسانی چہرہ ہی رہ جاتا ہے۔‘
اور آخر میں ایک اور وجہ بھی بتائی جاتی ہے جو غالبا انسانی ارتقا سے منسلک ہے۔
اس نظریے کے مطابق جب انسان ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو سونگھ سکتے ہیں۔ تاہم ایک تجزیے کے مطابق انسانی آبادی کا نصف سے بھی کم حصہ ہونٹوں سے بوسہ لیتا ہے۔
پروفیسر ولیم جانکویاک نے دنیا بھر میں 168 ثقافتوں کا جائزہ لیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق تقریبا 46 فیصد افراد رومانوی انداز میں ہونٹوں سے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہیں۔ اس تعداد میں والدین کا اپنی اولاد کا بوسہ لینا یا پھر جیسا کہ کئی معاشروں میں ہوتا ہے کہ ملاقات کے وقت ملنے والے بوسہ لیتے ہیں، شامل نہیں۔
پروفیسر ولیم جانکویاک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کی یہ ضرورت بوسہ لینے کے علاوہ بھی دیگر کئی طریقوں سے پوری ہو سکتی ہے۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ دلچسپ چیز یہ ہے کہ معاشرتی پیچیدگیاں جتنی زیادہ بڑھتی ہیں، بوسہ لینے کا رجحان بھی بڑھ جاتا ہے۔
لیکن یہ رواج کیسے شروع ہوا؟
ہمارے پاس تاریخ میں سب سے پہلے اس طرح کے رویے کا جو تحریری ثبوت ہے وہ ساڑھے تین ہزار سال پرانے ہندو ویدک سنسکرت سے ملتا ہے۔
’دی سائنس آف کسنگ‘ کی مصنف شرل کرشنبام کہتی ہیں کہ ’ویسے تو ایسی بہت سی ثقافتیں ہیں جن میں ہونٹوں سے بوسہ لینے کی مثال ملتی ہے لیکن ایک مالے بوسہ بھی ہے جس کے بارے میں ڈارون نے لکھا ہے کہ خواتین زمین پر لیٹ جاتیں اور مرد اوپر سے ان کو سونگھتے۔‘
’پھر ٹروبریانڈ جزائر جہاں میں نے سب سے حیران کن رواج دیکھا۔ وہاں تحقیق کے لیے جانا ہوا تو مجھے علم ہوا کہ رواج یہ ہے کہ محبت کرنے والے ایک دوسرے کی پلکیں نوچتے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کو یہ ایک بہت غیر رومانوی سی حرکت لگے گی لیکن ان کے لیے یہ محبت دکھانے کا ایک طریقہ ہے۔‘
شرل کرشنبام کا کہنا ہے کہ طریقہ جو بھی ہو، اس کے پیچھے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنے کی نیت کارفرما ہوتی ہے تاکہ ہم ان کے قریب تر ہو سکیں۔
تاہم ہونٹوں سے لبوں کا بوسہ لینا انسانوں تک محدود ہے۔
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بوسہ لینا ایک ارتقائی عمل ہے تو ہم جانوروں میں ایسا رواج کیوں نہیں دیکھتے؟ چند پرندوں میں چونچیں لڑانے کا رواج موجود ہے جبکہ چند ممالیہ میں یہ رواج ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سونگھتے ہیں تاکہ دوست اور دشمن کی پہچان کی جا سکے۔
تاہم بہت کم جانور ایسے ہیں جن میں ہونٹوں سے بوسہ لینے کے شواہد موجود ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسانوں کی سونگھنے کی حس دیگر جانوروں کے مقابلے میں کافی کمزور ہوتی ہے جو انتہائی قربت کے بغیر ہی ایک دوسرے کو سونگھ سکتے ہیں۔
لیکن انسانوں کو اس کے لیے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہونا پڑتا ہے اور شاید اسی سے لبوں کے بوسہ کا رواج پڑا۔ یہ سوال بھی ہے کہ یہ رواج ہر ثقافت میں کیوں نہیں پایا جاتا اور کیا یہ طریقہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا؟
شرل کرشنبام کہتی ہیں کہ دنیا میں مختلف ادوار اور مختلف مقامات میں بوسہ لینے کے رواج میں کمی بیشی آئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بیماری ہے۔
’بہت پہلے سے انسان یہ جان گئے تھے کہ بیماری سے بچنے کے لیے کچھ چیزوں سے دور رہنا ضروری ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’انسانی تاریخ میں ایسے وقت بھی آئے جب کسی بادشاہ نے عام لوگوں پر بوسہ لینے کی پابندی عائد کر دی کیوں کہ ان کے نزدیک یہ صرف ان کا اختیار تھا۔‘
’تاہم پابندیوں، بیماریوں، اور وباؤں کے باوجود بوسہ لینے کا رواج انسانی تاریخ میں بار بار لوٹا۔‘