جنگ کے آغاز سے ہی یوکرین کے شہر خیرسون کے نواح میں واقع ایک فوجی ہوائی اڈے اور ایک گاؤں نے بین الاقوامی خبروں میں اپنی جگہ بنائی ہے اور یہ کافی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
رواں برس فروری میں روس کی جانب سے حملے کے آغاز کے چند دنوں کے اندر ہی روسی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی غرض سے یوکرینی افواج نے بارہا اس پر حملے کیے۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ روس، یوکرین جنگ کے اہم ترین محاذوں میں سے ایک بن گیا۔
یوکرین میں جنگ میں مصروف روسی افواج کو سامان کی بلاتعطل ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے سامان حرب اسی ایئرفیلڈ کے ذریعے پہنچایا گیا۔ جنگ کے آغاز پر روس کے ابتدائی عزائم یہ تھے کہ یوکرین کے جنوبی ساحل کے ساتھ پہلے میکولائیو اور پھر اوڈیسا تک پیش قدمی کی جائے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ چورنوبائخیوک کے اس فوجی ایئربیس نے روسی فوجیوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مغرب کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے خطرناک دریائی گزرگاہوں سے بچ سکیں۔
لیکن اس فوجی ایئربیس پر روس کا قبضہ کرنا مشکل بھی ثابت ہوا۔ اس قبضے کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں روسی ہیلی کاپٹرز اور گاڑیاں تباہ ہوئیں اور یوکرین کی جانب سے کیے گئے ایک حملے کہ دوران اس ایئربیس پر موجود دو روسی جنرل بھی مارے گئے۔ یوکرینی افواج نے اس ٹارگٹ پر چن چن کر حملے کیے، بعض اوقات کو یہ حملے روزانہ کی بنیاد پر کیے گئے۔
اور پھر چند ہی دنوں میں یہ ایئربیس اور یہاں پیش کی جانے والی مزاحمت اس جنگ میں یوکرینی فوج کی عظمت اور روس کی شکست کا استعارہ بن گئی۔
بہت سے یوکرینیوں نے اسے روس کی شکست کے مقام سے تعبیر کرنا شروع کر دیا۔
روسی افواج نے کبھی بھی اس علاقوں میں اپنے فوجی جانی و مالی نقصانات کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کی ہے۔
روسیوں کے یہاں سے انخلا سے پہلے ہفتوں تک، یوکرین کی فوج نے منظم طریقے سے پلوں، کمانڈ پوائنٹس اور اسلحہ ڈپوز کو نشانہ بنایا۔ تاہم، ماسکو میں وزارت دفاع نے کہا کہ انھیں دریائے دنیپرو کے مغربی کنارے سے پسپائی کے دوران کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
فوجی حملے کے نیتجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے علاوہ ایک اور کہانی سامنے آئی جو چورنوبائخیوک کے اطراف بسنے والی ایک چھوٹی سی کمیونٹی کی ہے۔ یہ مقامی رہائشی مہینوں تک بیرونی دنیا سے کٹے رہے اور انھیں یہ علم بھی نہیں تھا کہ اسی دوران وہ یوکرین اور بیرونی دنیا کے لیے قومی مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں۔
وہاں کی رہائشی وکٹوریہ نے بتایا کہ ’ہم مہینے میں صرف دو بار کھانا خریدنے کے لیے باہر نکلتے تھے۔ ہم کہیں نہیں جاتے تھے۔‘
وکٹوریہ جنگ کے آغاز سے قبل تک اس لیجنڈری ایئر فیلڈ میں آپریٹر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔
آج مہینوں بعد اُن کی پرانی کام کی جگہ کھنڈرات میں بدل چکی ہے۔
گاؤں کے وسط میں ایک بینچ پر بیٹھی سویتلانا میروشنیچینکو نے روسی فوجیوں کو اپنے ملک کے جھنڈے کو گالی دیتے ہوئے دیکھ کر جو صدمہ محسوس کیا، اس کے بارے میں بتایا۔
’جب یہاں سے یوکرین کا جھنڈا اتارا گیا تو انھوں نے اسے پاؤں تلے روند دیا۔ روسیوں نے یوکرین کے جھنڈے کا مذاق اڑایا۔ انھوں نے اس سے اپنی گاڑی کی کھڑکیاں صاف کیں۔ میرا دل ٹوٹ گیا، پھر انھوں نے وہاں روسی جھنڈا لہرا دیا۔ مگر ہم نے اسے قبول نہیں کیا۔‘
11 نومبر کو خیرسون سے پسپائی اختیار کرتے وقت روسی افواج نے مواصلات کے پورے نظام کو تباہ کر دیا۔
مقامی سکول میں 30 برس تک پڑھانے والی ایک سابق استاد سویتلانا نے بتایا کہ میدان جنگ میں ان کے دو سابق طلبا مارے گئے جبکہ دیگر اب بھی اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔
اگلا پڑاؤ تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو اور بجلی کی سپلائی بحال کرنا ہو گا، لیکن اس کے بعد یہاں بسنے والی اِس کمیونٹی کو اس کشیدگی سے نمٹنا ہو گا جو آٹھ ماہ کے قبضے کے دوران پیدا ہوئی ہے۔
گاؤں کے رہائشی ایہور دودر کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ روسی قبضے کے دوران بھی اسی علاقے رہے، مگر کچھ لوگ یہاں سے چلے گئے۔‘
’اور اب وہ رہائشی جو جنگ کے خوف سے فرار ہو گئے ہیں انھیں لگ رہا ہے کہ بھاگنے اور بہت زیادہ خوفزدہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے بارے میں غلط سوچ رہے ہوں گے۔‘
روسی قبضے کے تحت گاؤں میں رہنا ایک جان لیوا خطرہ تھا۔ مقامی حکام کا اندازہ ہے کہ روسی افواج نے اس علاقے میں کم از کم 20 شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ چار مقامی باشندے اب بھی روسیوں کی قید میں ہیں۔
وکٹوریہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’روسی فوجی دکان کے پاس سے گزر رہے تھے۔ انھوں نے دو نوجوانوں کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب انھوں نے ان سے سگریٹ مانگا۔ یہ دونوں 19 سالہ نوجوان میرے پڑوسی تھے۔‘
انھون نے دو نوجوانوں، ڈینس ڈوڈچینکو اور وولوڈیمیر پریلوٹسکی کی تصاویر دکھائیں، جو خون میں لت پت پڑے تھے۔ یوکرینی فورسز ان کی موت کی تحقیقات کر رہی ہیں۔
یوکراینی اب اس ہوائی اڈے پر جنگی میوزیم قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں تاہم جنگ ختم نہیں ہوئی۔
یہاں لوگوں کے گھروں کے بالکل قریب توپ خانے کے گولے گرتے رہتے ہیں۔ لیکن خطرے کے باوجود، بہت سے رہائشیوں کا خیال ہے کہ ان کے لیے بدترین وقت ختم ہو گیا ہے۔