Site icon DUNYA PAKISTAN

’مجھے کالج کی لڑکی کا کیریکٹر تو نہیں کرنا لیکن ایسا بھی محسوس نہ ہو کہ یہ صرف ایک ماں کی کہانی ہے‘

Share

’ماں کا کردار ادا کرنے میں کوئی بُری بات نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ مجھے کالج کی لڑکی کا کیریکٹر تو نہیں کرنا لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ محسوس ہو کہ یہ صرف ایک ماں کی کہانی ہے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ یہ ایک خاتون اور ایک انسان کی کہانی ہے جو اتفاق سے ایک ماں بھی ہے۔‘

یہ کہنا ہے اداکارہ سویرا ندیم کا جو اِن دنوں ہم انٹرٹینمنٹ کے ڈرامہ سیریل ’وہم‘ میں رخسانہ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

سویرا ندیم نے 1990 کی دہائی میں پی ٹی وی سے اداکاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے انگریزی ادب پڑھا اور اس کے بعد اداکاری کی تربیت بھی حاصل کی۔

وہ پی ٹی وی سمیت پرائیوٹ پروڈکشنز کے درجنوں ڈراموں میں کام کر چکی ہیں۔

سویرا کہتی ہیں کہ ’اداکار کو ہر عمر کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے، دیکھنے والوں کے دماغ میں اگر کوئی کیریکٹر بیٹھ جاتا ہے تو وہ آپ کو اسی طرح سے دیکھنا چاہتے ہیں اور پھر یہ رکاوٹیں ہٹانی پڑتی ہیں۔‘

’وہم کی رخسانہ‘

ہم انٹرٹینمنٹ کا ڈرامہ سیریل ’وہم‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو ایک آزاد لیکن الگ تھلگ زندگی گزارتی ہے۔

بظاہر وہ ایک خیال کرنے والی اور اردگرد کے لوگوں کے لیے ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔

یہ کہانی عمران نظیر نے لکھی ہے جبکہ عدنان وائی قریشی نے ہدایت کاری کی ہے۔ سویرا ندیم کے ساتھ اس ڈرامے کی کاسٹ میں کنزہ ہاشمی، زاویار نعمان، بابر علی، عدنان صمد، شمیم حلالے اور تارہ محمود شامل ہیں۔

سویرا ندیم کہتی ہیں کہ ’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ڈرامے کی کہانی ان کے کردار کے گرد گھومتی ہے اور ایسے ڈرامے ان کے پسندیدہ ڈرامہ ہوتے ہیں۔‘

’مجھے سنسنی (سسپینس) پسند ہے۔ مجھے ایسی کتابیں پڑھنے کا بھی شوق ہے۔ ایسے ڈرامے دیکھنے کا بھی شوق ہے۔‘

انھوں نےکہا کہ یہ تھوڑا پٹا ہوا فقرہ ہو جائے گا لیکن جب انھوں نے جب یہ سیریل پڑھا تھا تو انھیں ’ذرا ہٹ کے‘ لگا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ سیریل واقعی ایسا ہی تھا اس کے کیریکٹر میں کئی سطحیں ہیں، کافی دلچسپ تھا، ایک مضبوط، آزاد کیریکٹر۔۔۔ یہ خوبیاں مجھے اچھی لگی تھیں تو میں نے سوچا ہاں میں ایسا کردار کر سکتی ہوں۔‘

سویرا کے مطابق ’عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ڈرامے کی کچھ قسطیں بنتی ہیں اور وہ آن ایئر چلی جاتی ہیں، کچھ قسطیں ابھی ریکارڈ نہیں ہوتیں اور نہ ہی لکھی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ سکرپٹ لوگوں کا رسپانس دیکھ کر لکھا جاتا ہے لیکن ’وہم‘ میں ایسا کچھ نہیں تھا۔

’یہ شروع سے ہی لکھا ہوا مکمل سکرپٹ تھا۔ اس کا یہ ہی پلان تھا کہ اسی طرح سے چلے گا، میٹھے میٹھے طریقے سے سسپینس بنائیں گے۔ ہمیں تو اس ڈرامے کا زبردست قسم کا ریسپانس مل رہا ہے۔ جو لوگ مجھ سے ملتے ہیں وہ کردار کی وجہ سے غصہ کرتے ہیں لیکن میں مثبت انداز میں لیتے ہوئے اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں۔‘

 ’زاویار کو دیکھا تو چھوٹے چہرے والا بچہ یاد آیا‘

سویرا ندیم اپنے دیگر ساتھیوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ انھوں نے جب کاسٹ میں بابر علی اور کنزہ کا نام دیکھا تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کاسٹ تبدیل نہیں ہو گی۔

’اس سے قبل بابر علی کے ساتھ کام کیا تھا لیکن وہ آن ایئر نہیں ہوا تھا، کنزہ سے اچھی کیمسٹری رہی ہے۔ شمیم آپا کا سب کو پتا ہے کہ وہ کس قسم کی شخصیت ہیں۔ وہ بہت ہی ذہین اور پرکشش شخصیت رکھتی ہیں۔ ان سے گفتگو میں مزا آتا ہے۔ جو لڑکی حوریہ کا کردار کر رہی ہے، وہ سکول میں پڑھاتی ہے، کافی پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ اُن سے باتیں کر کے کافی مزا آتا تھا۔‘

پاکستان کے مقبول اداکار نعمان اعجاز کے بیٹے زاویار نے حال ہی میں اداکاری کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ ڈرامہ سیریل وہم میں زاویار سویرا ندیم کے بیٹے کا کردار نبھا رہے ہیں۔

زاویار کے ساتھ کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے سویرا نے بتایا کہ ’زاویار کو بچپن سے دیکھا تھا۔ اپنے والد سے مشہابت رکھتا ہے۔ میں نے نعمان صاحب کے ساتھ بھی کافی کام کیا۔ ہماری کیمسٹری بہت اچھی تھی۔ ایک تو وہ بالکل اپنے والد کی کاپی ہے۔ دوسرا بچپن والا چھوٹا چہرہ یاد آ رہا تھا۔ بہت عجیب لگا تھا لیکن مزہ آیا تھا سین کر کے۔‘

’شوٹنگ کے دوران نامعلوم جگہ سے پانی آ گرا‘

سویر ندیم بتاتی ہیں کہ ’وہم‘ کا مین سیٹ کراچی میں گرو مندر کے پاس ایک پرانی کالونی میں موجود گھر میں لگایا گیا تھا۔

اس سیٹ کا منظر کھینچتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’اگر اتنا پرانا گھر بنا ہوا ہو تو ویسے ہی لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کچھ ہے۔ اس کی اوپر کی منزل کبھی کھلی نہیں تھی۔ کھڑکیوں کے باہر بھی کیل لگے ہوئے تھے۔ اوپر کا حصہ بالکل ہی زیر استعمال نہیں تھا۔ اُس کے گیٹ بھی سو سال پرانے تھے۔‘

انھوں نے ایک قصہ بتایا کہ ’ہم وہاں صحن میں کھڑے شوٹنگ کر رہے ہیں اور ایک دم سے اوپر سے بہت سارا پانی آ گرا، جس کا وہاں کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ پانی کہاں سے آیا۔ سارے لوگ گھبرائے ہوئے تھے۔ سب اپنے اپنے سائنسی دلائل دیتے تھے لیکن ہم نے کہا نہیں کچھ نہ کچھ تو ہے۔‘

سویرا کے مطابق مشکلات کے باوجود سیٹ پر مزہ آتا تھا۔ ’لوکشین ٹیڑھی تھی، تھوڑی دور تھی، چار مرتبہ تو لوگ بیمار ہوئے، کبھی کسی کو کووڈ ہو گیا۔‘

’آئیڈیاز کی کمی ہے‘

سویرا ندیم جو تین دہائیوں سے ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ ہیں، کا خیال ہے کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور میں آئیڈیاز کی کمی ہے۔

ان کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں فرق آیا ہے۔ ٹیکنالوجی میں بھی جدت آئی ہے، نسلیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر نسل نئے مائنڈ سیٹ کے ساتھ آتی ہے۔

’ان کی انٹرٹینمنٹ کے حوالے سے توقعات بھی اپنی ہوتی ہیں۔ اب وہ اسی طرح (ماضی) کی چیزیں دیکھیں تو یقیناً وہ کہیں گے کہ یہ سلو ہے، یہ اچھا نہیں۔‘

’اب مجھے جو نظر آتا ہے کہ ماضی میں آئیڈیاز کی کافی ورائٹی تھی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اہمیت دی جاتی تھی۔ بڑے بڑے ایشوز پر بھی بات کر لیتے تھے۔ ان دنوں آئیڈیاز کی کمی نہیں ہوتی تھی۔ اب لگتا ہے جیسے سب ایک ہی ربط میں چلنا چاہتے ہیں، کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔‘

سویرا نے انڈیا کی سٹریمنگ سروس ژی فائیو سے نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’دھوپ کی دیوار‘ میں پاکستانی اداکاروں سجل علی اور احد رضا میر کے ساتھ کام کیا تھا۔

اس سیریز میں اپنے کردار کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کیریکٹر کی بات کی جائے تو سچ بات تو یہ ہے کہ اس میں کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا لیکن انھیں موضوع بہت اچھا لگا تھا یعنی دونوں سرحدوں کی طرف ایک مثبت پیغام دیا جا رہا تھا۔‘

Exit mobile version