کالم

جنوبی کوریا سے ایک خط

Share

شہروں کے انتخاب کا معاملہ خاصاٹیڑھا ہے۔کسی سیاح سے اگر یہ پوچھا جائے کہ اس کاپسندیدہ شہرکون ساہے؟ تواس کے جوا ب کا ممکنہ انحصاراس بات پرہوگاکہ اس دن اس کی صحت،طبیعت کیسی تھی؟واش روم کیسااستعمال کیا؟یعنی وہ کس قدرصاف ستھرایاگندہ تھا۔استراحت کی جگہ کس قدرآرام دہ یاتکلیف دہ تھی؟البتہ شہرکے لوگوں کے بارے میں بات کرناقدرے آسان ہوتا ہے۔وہ یوں کہ کوئی بھی نگری اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوتی اوربرے لوگوں سے مبرابھی نہیں ہے۔کم از کم میراتجربہ تویہی ہے کہ بستیوں میں بھلے اوربرے لوگوں کے تناسب کاہی فقط فرق ہواکرتاہے،ہرقریے میں پائے دونوں رنگ اورطرزکے لوگ جاتے ہیں۔کہیں اچھے لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں توکہیں اقلیت میں نظرآتے ہیں۔
جنوبی کوریاکے سفرکاارادہ باندھنے کے بعدپہلاجھٹکاتومجھے اس وقت لگاجب ٹریول ایجنٹ نے ٹکٹ بھجوایا۔ائیرلائن کانام پڑھاتوششدررہ گیا۔آپ بھی سنیے گا”جن ائیر“جی ہاں!یہی نام ہے ہماری پرواز کااہتمام کرنے والوں کا۔اب خدامعلوم جوجن اوربھوتوں کے قصے ہم نے بچپن سے سن رکھے ہیں،اس ائیرلائن کاان جنات وبلیات کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ ہے کہ نہیں،مگربقول شاعر
؎ اڑنے سے پیشتر ہی میرارنگ زردتھا
خیریت مگریہ گزری کہ ٹوکیوسے شروع ہونے والے اس ہوائی سفرمیں منزل مقصودتک البتہ کسی ”ہوائی چیز“کے ساتھ کوئی معاملہ پیش نہیں آیاہے،جس کے لئے میں جنوبی کوریاکی جن ائیرلائن کاتہہ دل سے شکریہ اداکرناواجب سمجھتاہوں۔جنوبی کوریاکادارلحکومت سیؤل ہے مگربین الاقوامی ہوائی اڈاانچون شہرمیں ہے جوکہ اس کاملحقہ شہرہے۔آپ سیؤل اورانچون کی مثال راولپنڈی اوراسلام آبادکی لے سکتے ہیں،مگرہمارے ملک کے دارلحکومت اوراس سے ملحقہ شہرمیں زیادہ فرق ہے،جڑواں توپنڈی اسلام آباد ضرورہیں مگرطرزبودوباش،انفراسٹرکچراوردونوں شہروں کی ثقافت میں بے پناہ تفاوت ہے جبکہ سیؤل اورانچون نہ صرف کہ آپس میں جغرافیائی اعتبارسے جڑواں ہیں بلکہ ثقافتی،سماجی اوردیگرتمام حوالوں سے بھی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔آپ اسے ایک ہی شہرکہہ سکتے ہیں،اس میں جنوبی کوریاکی آدھی آبادی یعنی سواپانچ کروڑنفوس کانصف بستی ہے،جوکہ اسے دنیاکاچوتھابڑاشہربنادیتی ہے۔یوں کہنازیادہ بہترہے کہ سیؤل کودنیاکاچوتھاگنجان ترین دارلحکومت ہونے کااعزازحاصل ہے۔
جنوبی کوریازیادہ ترپہاڑوں اورجنگلات پرمشتمل جزائرکامجموعہ ہے،اس کے دیگراہم شہردائی گواوربوسان ہیں۔مجھے کوریاکی سیاحت کی دعوت البتہ ایک قدرے چھوٹے شہرپوہان سے آئی تھی۔ایئرپورٹ پرمجھے لینے کے لئے دیرینہ دوست چوہدری راشدنصیرفلائیٹ پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔جیسے ہی انچون کے عالمی ہوائی اڈے پر قدم رکھاتوان کی کال آگئی کہ وہ باہرمیرے منتظرہیں۔کورین حکومت نے یہ بڑااچھااہتمام کیاہے کہ کسٹم پارکرتے ہی کئی کرنسی تبدیل کرنے کی دوکانیں بنائی ہوئی ہیں اورپھروہیں پرٹیلی فون کی سم یاپھرانٹرنیٹ چلانے کے لئے فوری دستیاب ای سم فراہم کرنے کے کاؤنٹربنارکھے ہیں۔جوکہ ارزاں نرخوں پرباآسانی فوری طورپرسیاحوں کوفراہم کردی جاتی ہیں۔بظاہریہ چھوٹی چھوٹی غیراہم سی باتیں ہیں مگرایک سیاح اورغیرملکی کی نظرسے دیکھیں توان کی بہت اہمیت ہے۔ایک مقصداس تحریرکاتوہم وطنوں کے لئے رہنمائی کی فراہمی ہے،جبکہ دوسرامقصداپنے ارباب اقتدارکوترغیب دلاناہے کہ ٹورازم کے فروغ کے لئے ایسے کم خرچ مگراہم اقدام ضروراٹھائیں جوسیاحوں کوسہولت اورراحت پہنچانے کا سبب ہیں۔
کوریاکی تاریخ پربات کی جائے توان جزائرپرتیس لاکھ سال پہلے زندگی کے آثارملتے ہیں۔جدیدتاریخ کاتذکرہ کیاجائے توچینی مورخین کے بیان کے مطابق سات سوسال قبل ازمسیح میں یہاں بادشاہت قائم ہوچکی تھی۔بادشاہت کا یہ سلسلہ 1910میں جاپان کے کوریاپرقبضے تک کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔جاپان کے قبضے سے پہلے دوحکمران خاندان مسنداقتدارپرآٹھ صدیوں تک براجمان رہے۔
آج کے جنوبی کوریاکی بات کریں تویہ دنیاکی بارہویں بڑی معیشت ہے،اسی بنیادپریہ G20جوکہ دنیاکی بیس سب سے بڑی معیشتوں کی ایک تنظیم ہے،اس کا اہم رکن ہے،اس کے علاوہ پیرس کلب اورOECDکارکن ہے۔جنوبی کوریااس وقت دنیاکانواں بڑاایکسپورٹرہے،اس کے باوجودکہ قدرتی وسائل یہاں نہ ہونے کے برابرہیں۔سچ جانیے یہ معاشی معجزہ اس ملک کی عوام کی شب وروزکی محنت اورحکومت کی دانشمندانہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔حکومتی پالیسیوں کاتذکرہ میں نے اس لئے کیا کہ دارلحکومت سیؤل سے ذرا پرے ہی پہاڑیوں کے اس پارشمالی کوریاہے۔میری دانست میں وہاں کے لوگ بھی کم محنتی اورکم درجے کاذہن نہیں رکھتے ہوں گے مگروہ ایک فاقہ زدہ ملک کی شہرت رکھتاہے۔ایٹم بم اورمیزائل ٹیکنالوجی کی جدیدترین سطح پرموجودہونے کے باوجودمعاشی بدحالی کاشکارہے۔آج دوپہرایک کورین دوست سے بات ہورہی تھی۔بتانے لگاکہ جب1951کی کورین جنگ ہوئی تواس وقت شمالی کوریا کے لوگوں کاعمومی قد،کاٹھ جنوبی کوریاکے لوگوں کی نسبت خاصاطویل تھا،اب صورتحال یہ ہے کہ جنوبی کوریاکے باشندوں کاعمومی قدواضح طورپراپنے شمالی کوریاکے ہمسائیوں سے زیادہ ہے۔ایک ہی زبان،ایک ہی طرزبودوباش مگران کے پست قدکی وجہ خوراک کی کمی ہے،غذائی قلت کی وجہ سے شمالی کوریاکے لوگوں کااوسط قدجنوبی کوریاکے لوگوں سے چھوٹارہ گیاہے۔
اس ملک کی 56فیصدآبادی لادین ہے۔تاریخی اعتبارسے کوریابدھ مت کاپیروکاررہاہے،مگراب عیسائیوں کی تعدادزیادہ ہے،جوکہ آبادی کا27فی صدہیں،جبکہ بدھ مت کے ماننے والے پندرہ، سولہ فیصدرہ گئے ہیں۔عیسائی آبادی کے اضافے کی ایک وجہ یہاں امریکی افواج کاطویل عرصے سے قیام بھی ہے۔تقریباًتیس ہزارامریکی فوجی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے یہاں موجودرہتے ہیں۔شہروں میں جگہ جگہ صلیبیں گڑھی ہوئی نظرآتی ہیں۔آج کل پوری دنیامیں کوریاکاایک نیاتعارف اس کاپاپ کلچر،میوزک،ڈرامے اورفلمیں بنی ہوئی ہیں،اسے عرف عام میں ”کورین ویوو“کہاجاتاہے۔کوریاکی یہ ثقافتی لہرجاپان اورامریکہ میں بالخصوص محسوس کی جارہی ہے۔
ہمارے صحافی اورادیب دوست اکثرجب کسی معاشی اعتبارسے ترقی یافتہ ملک کاتذکرہ کرتے ہیں تواس کی ترقی کا راز بھی بیان ضرورکردیتے ہیں۔میرانقطہئ نظراس بابت ذرامختلف ہے،ترقی کاکوئی خفیہ رازاورشارٹ کٹ نہیں ہوتاہے جب آپ ریاستی سطح پربات کرتے ہیں۔البتہ کوریاکی ترقی کی وجوہات میں سے ایک وجہ اس کا شرح پیدائش دنیامیں سب سے کم ہونابھی ہے،یہی شایدسبب ہے کہ وہ دنیامیں طویل ترین عمرپانے والی اقوام میں سے بھی ہیں۔کوریاکی وجہئ تسمیہ کاقصہ بھی دلچسپ ہے۔یہاں گوریونام کی خاندانی بادشاہت گزری ہے،جس کے بعداس جزیرہ نماکواسی نام سے یادکیاجانے لگا۔جب عرب اورایرانی تاجراس نام کوپکارتے تواس کا تلفظ کوریاہوتاتھا۔یہیں سے عالمی نقشوں میں پانچ صدیاں پہلے یہ خطہ ارضی کوریاکے نام سے ابھراتھا۔اس خطے کوKOREAاورCOREAدونوں طریقوں اورہجوں کے ساتھ تحریرکیاجاتاتھا،مگرجب کوریاکوجاپان نے اپنی نوآبادی بنالیاتوحروف تہجی کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے،جاپانیوں نے KOREAکے یہ ہجے لازمی قراردے دیے۔چونکہ”C“کے ساتھ کوریالکھنے سے وہ حروف تہجی کے اعتبارسے جاپان سے پہلے آتاتھا،جوکہ شایدجاپانیوں کوپسندنہ تھا۔جاپان کی حکومت تو1945میں اس کی دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعدجزیرہ نماکوریاسے ختم ہوگئی مگرہجے پھروہی مستقل اختیارکرلئے گئے جوجاپانی لازمی قراردے گئے تھے۔
کوریاپہلی نظرمیں مجھے بالکل جاپان جیسالگا۔اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ گزشتہ صدی کاتقریباًپہلانصف حصہ جاپان کااس جزیرہ نماپرقبضہ رہا،جس دوران ناصرف جاپانی زبان لازمی قراردے دی تھی،بلکہ تمام ملک کاانفراسٹرکچربھی جاپانی طرزپرتعمیرکیاگیاتھا۔یہ مماثلت تونظربظاہرحدتک سہی،اس ملک کی دستاویزات اورنظام مملکت پرجاپان کی بڑی گہری چھاپ نظرآتی ہے۔جب جاپان یہاں سے رخصت ہواتوکوریاکوفاتحین یعنی امریکہ اورسوویت یونین نے آپس میں تقسیم کرلیا۔سوویت روس کے حصے میں آنے والے شمالی حصے میں کیمونزم رائج کردیاگیا،جوکہ اب تک ویسے ہی نافذالعمل ہے۔جنوبی حصے میں امریکہ بہادرنے کھلی منڈی اورامریکی طرزکی جمہوریت نافذکردی۔یہ جمہوریت اب ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعدمضبوط نظرآرہی ہے۔جنوبی کوریاکے سماج میں اپنی جڑیں پکڑگئی ہے۔