وطن عزیز میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ کاروبار کی دنیا میں گرمی بازار کا یہ عالم ہے کہ دکاندار دھڑا دھڑ نئی تجوریاں خرید رہے ہیں۔ امن و امان کی یہ کیفیت ہے کہ قصہ کہانیوں کی وہ عورت پاکستان کا ویزہ لینے کے لئے قطار میں کھڑی ہے جسے کراچی سے پشاور تک بے خوف و خطر سونا اچھالتے ہوئے چلے جانا ہے کیونکہ اس نے ن م راشد کو پڑھ رکھا ہے اور جانتی ہے کہ یہی وہ زمیں ہے جہاں ’’فلسفی نے دیکھا تھا… ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشم جاں فروز کی آرزو کا پرتو‘‘۔ اناج کی ایسی فراوانی ہے کہ زرخیز زرعی زمینوں پر بنگلے اور پلازے کھمبیوں کی طرح نمودار ہو رہے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر (کل حجم ساڑھے سات ارب ڈالر) سے خزانوں کے منہ اس طور پھٹے پڑ رہے ہیں کہ پاکستان کو 5 دسمبر کو غیرملکی بانڈ خریدنے والوں کو ایک ارب ڈالر مع 7.95 فیصد سود ادا کرنا تھے۔ تاہم اسٹیٹ بینک کے گورنر محترم جمیل احمد نے اعلان فرمایا ہے کہ یہ رقم تین روز قبل یعنی 2 دسمبر ہی کو ادا کر دی جائے گی کیونکہ دوست مالیاتی اداروں سے دھڑا دھر قرض موصول ہو رہا ہے۔ شہروں میں کوئی چوک ایسا نہیں جہاں چیتھڑوں میں ملبوس مرد و زن رات گئے تک نظر نہ آتے ہوں ۔ انہیں گداگر نہ سمجھئے۔ فرقہ ملامتیہ کے یہ خرقہ پوش دراصل’’ید بیضا لئے پھرتے ہیں اپنی آ ستینوں میں‘‘۔ بھیس بدل کر کوچہ و بازار میں نکلتے ہیں کہ کوئی ضرورت مند نظر آئے تو اس کی حاجت روائی کریں۔ خوشحالی مگر اس رنگ میں اتری ہے کہ غربت کا معنی کوئی نہیں جانتا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ریاض میں نیا ایئرپورٹ تعمیر کر رہے ہیں تاکہ سعودی دارالحکومت دنیا کے دس بڑے کاروباری شہروں میں شمار ہو سکے۔ ہمیں بفضل تعالیٰ ایسی کوئی فکر نہیں۔ ہمیں دو ہی شوق ہیں، وسیع و عریض قطعات اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کرنا اور مہنگی گاڑیوں میں شام ڈھلے خور و نوش کے ٹھکانوں کا رخ کرنا۔ علاوہ ازیں حالیہ سیلاب میں ہونے والے والے 30ارب ڈالر کے نقصان سے ہم بے نیاز ہیں۔ ممکنہ غذائی قلت کی ہمیں فکر نہیں۔ کسی سیاسی جماعت کو فکر نہیں کہ لمحہ موجود میںا سکول سے محروم 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اگلے دس برس میں جوان ہوں گے تو روٹی روزی کے لئے جرائم کا راستہ اختیار کریں گے۔ ہمیں البتہ یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ کس اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آئے گی؟ کون سی اسمبلی تحلیل ہو گی؟ کونسے ارکان پارلیمنٹ وفاداریاں تبدیل کریں گے؟ کس صوبے میں استعفے دیے جائیں گے؟ ضمنی انتخابات میں کیا ہتھکنڈے استعمال کرنا ہوں گے؟
حالات کی اس تصویر کا ایک تیسرا رخ بھی ہے جس کا ذکر سرخ لکیر پر کھڑے ہو کر بھینسے کو لال کپڑا دکھانے جیسا ہے مگر صحافی کو ناخن کا قرض تو ادا کرنا ہے۔ جدید اسلحہ خریدنے میں اس وقت بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان نویں درجے پر ہے۔ اسلحہ بیچنے میں دنیا کے دس پہلے ممالک کی فہرست پر ایک نظر ڈالئے۔ امریکہ، روس، فرانس، جرمنی، اسپین، جنوبی کوریا، اٹلی، چین، ہالینڈ اور برطانیہ۔ کچھ سمجھے کہ دلی کے امیر زادوں کی دولت اور ہماری غربت میں کیا تعلق ہے؟ چلئے، یہ قصہ یہیں چھوڑ کر دو اہم معاملات پر بات کر لیتے ہیں لیکن پہلے شاد لکھنوی کا ایک شعر سن لیجئے۔ ’’عیال و مال نے روکا ہے دم کو آنکھوں میں…یہ ٹھگ ہٹیں تو مسافر کو راہ مل جائے۔‘‘ عزیزان من، انیسویں صدی کا اردو شاعر عیال و مال کو قید حیات سے رہائی میں رکاوٹ جانتا تھا۔ ہمیں اکیسویں صدی میں یہ سہولت میسر نہیں۔ ہمیں خواہی نخواہی 23 کروڑ کی فکر کرنا ہو گی۔ معیشت کا علم درویش کا میدان نہیں البتہ یہ جانتا ہے کہ ترقی کے لئے دو طرح کی حکمت عملی اختیار کرنا ہے۔ قلیل مدتی اور طویل مدتی۔ قلیل مدتی حکمت عملی میں ویتنام اور بنگلا دیش کی مثال لیجئے۔ منفعت بخش معاشی سرگرمیوں میں عورتوں کی شرکت کے اعتبار سے دونوں ممالک ایشیا میں مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ ویت نام میں یہ شرح 75فیصداور بنگلادیش میں 60فیصد سے زائد ہے۔ کورونا کے دو برس چھوڑ کر ویت نام میں معیشت کی شرح نمو 7 فیصد سے زائد رہی ہے جب کہ بنگلادیش میں یہ شرح6فیصدکے قریب ہے۔ پاکستان میں عورتوں کی لیبر فورس میں شرکت محض 20فیصد ہے۔ ٹیکسٹائل ہمارا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ہے۔ فیصل آباد کے جن کارخانوں میں جانے کا موقع ملا، مینجمنٹ نے بڑے فخر سے بتایا کہ ’’حاجی صاحب‘‘ ( کارخانہ مالک) نے سختی سے عورتوں کو ملازمت دینے سے منع کر رکھا ہے۔ قبلہ حاجی صاحب کی پارسائی میں کلام نہیں لیکن ملکی معیشت 2 فیصد کی شرح نمو پر گھسٹ رہی ہے۔ یوں تو ہماری پیداواری بنیاد کا حجم ہی کیا ہے لیکن عورتوں کو معاشی میدان سے باہر رکھ کے ہم اپنا بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ قلیل مدتی ترقی کے لئے عورتوں کا معیشت میں حصہ بڑھانا ضروری ہے۔ طویل مدتی ترقی کے لئے ہمارا بنیادی اثاثہ ہماری نوجوان آبادی ہے خاص طور پر اس لئے کہ دنیا میں بزرگ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تاہم اس کے لئے نوجوانوں کی معیاری تعلیم ضروری ہے۔ اب ہم خلیج کے ممالک میں غیر ہنرمند افرادی قوت برآمد نہیں کر سکیں گے۔ چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہوتی دنیا میں ہمارے نوجوانوں کی قابل مسابقت تعلیم سے کوئی مفر نہیں۔ سیاسی رہنما مگر سمجھتے ہیں کہ ایک فلائی اوور دو برس میں تعمیر ہو جاتا ہے جب کہ ایک تعلیم یافتہ نسل تیار کرنے میں 25 برس لگتے ہیں۔ یہ سیاسی بصیرت نہیں، کوتاہ نظری ہے۔ شاد لکھنوی کا شعر عمدہ ہے لیکن ہمیں اپنی معیشت کو ریاستی اور غیر ریاستی اجارے کی مختلف صورتوں سے نجات دلانا ہے اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانےکیلئے نصاب اور تدریسی معیار کو بڑھانا ہو گا۔ ہم نے اپنے تعلیمی نظام میں جو حالیہ تبدیلیاں کی ہیں، وہ ترقی کا نہیں، مزید علمی پسماندگی کا نسخہ ہیں۔