قطر میں دولت مند غیر ملکیوں کے لیے بنایا گیا مصنوعی جزیرہ جو ایک الگ ہی دنیا ہے
’اگر قطر دنیا کے اندر ایک ببل (بلبلہ) ہے تو پرل قطر کے اندر ایک قسم کا ببل ہے۔‘
یہ بات اس پُرتعیش مصنوعی جزیرے کے رہائشی برطانوی نژاد سیوبھان ٹولی نے کہی جسے قطر نے دولتمند تارکین وطن کے لیے بنایا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ تعریف اس جگہ کے لیے درست بھی ہے جس کی گلیاں خلیج عرب کی نسبت بحیرہ روم کے یورپ کی زیادہ یاد دلاتی ہیں۔
متعدد قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شام کے وقت فٹ پاتھ پر واقع کیفے اور ریستورانوں میں بیٹھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔
یہاں ہسپانوی طرز کے چوک، نہریں اور وینیشین عمارتیں ہیں۔ یہاں راؤنڈ اباؤٹ فواروں سے مزین ہیں اور یہاں سڑکوں پر لاکھوں ڈالر مالیت کی سپورٹس کاریں موجود ہوتی ہیں۔
اس جزیرے کے رہائشی 20 سے زیادہ منزلوں کے پرتعیش ولاز یا اپارٹمنٹ بلاکس میں رہتے ہیں جن میں ایک سوئمنگ پول، جم اور یہاں تک کہ ایک نجی ساحل بھی موجود ہوتا ہے۔
یہاں دیکھے جانے والے مناظر دوحہ کے دوسرے علاقوں میں اتنے عام نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر لبنانی ریستوران میں داخل ہونے والی سعودی لڑکیاں جو چند منٹ بعد اپنے سر سے چادر اتار دیتی ہیں۔ وہ خواتین جو گہرے گلے والی شرٹس، برہنہ کندھوں اور چھوٹی سکرٹس پہنے ہوئے مرینہ سے گزرتی ہیں یا پھر ایسے ہوٹل اور بار جہاں شراب باآسانی دستیاب ہوتی ہے۔
سمندر سے حاصل کیا گیا چالیس لاکھ مربع میٹر کا رقبہ
یہ ’لا پرلا یونائیٹڈ ڈویلپمنٹ کمپنی‘ کا اہم منصوبہ ہے، جو کہ قطر کی بڑی تعمیراتی کمپنی ہے۔
یہ جزیرہ انسانوں نے مصنوعی طور پر بنایا ہے اور اس کے لیے تقریباً چالیس لاکھ مربع میٹر علاقہ سمندر سے حاصل کیا گیا ہے۔
یہ پہلا شہری منصوبہ تھا جس کے تحت غیر ملکیوں کو قطر میں جائیداد خریدنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اس میں اس وقت 25 ہزار رہائشی یونٹس اور 33 ہزار باشندے رہائش پذیر ہیں۔ ایک سٹوڈیو کی لاگت تین لاکھ ڈالرز ہو سکتی ہے اور سمندر کے نظارے والے پانچ بیڈ روم والے ولا کی قیمت ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔
ہر سال ایک کروڑ 50 لاکھ سیاح اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں جو آسمان سے موتی کی طرح نظر آتا ہے اور یہاں ریستوران، لگژری ہوٹل ہیں۔ شاپنگ مالز، بارز، سینما گھر اور مزید تفریحی ادارے بھی یہاں آپ کا استقبال کرتے ہیں۔
غیر ملکیوں کے لیے نخلستان
سیوبھان اور ایان ٹولی ایک ایسا برطانوی جوڑا ہے جو قطر میں سات سال سے مقیم ہیں۔
ایان انگریز، جبکہ سیوبھان سکاٹش ہیں۔ دونوں صحت کے شعبے کے لیے کام کرتے ہیں۔
وہ ویوا بحریہ نامی عمارت کے باہر ہمارا استقبال کرتے ہیں۔ یہ عمارت 30 طویل القامت ٹاورز کا ایک سیٹ ہے جو ساحل کے گرد ایک نیم دائرے میں موجود ہے۔
سیوبھان کہتے ہیں کہ ’جب ہم یہاں پہنچے، تو آس پاس شاید ہی کوئی سروسز موجود تھیں لیکن کچھ ہی عرصے میں یہ ریستوران، کیفے اور دیگر بزنسز سے بھر گیا۔ یہاں پیدل چلنے کی نسبت ڈرائیونگ کرنا زیادہ خوشگوار ہے۔‘
دوحہ ایک جدید شہر ہے جس میں بہترین سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ چند گلیوں، چوکوں اور کئی شاپنگ سینٹرز کو چھوڑ کر، یہ واقعی پیدل چلنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے اور سایہ دار جگہیں اور پارکس تلاش کرنا مشکل ہے۔
زیادہ تر سال یہاں درجہ حرارت چلنے کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ لا پرلا بحیرہ روم کے شہروں سے متاثر اس سلسلے میں ایک نخلستان ہے۔
سیوبھان کہتے ہیں کہ ’ہم یہاں تین سال کے لیے آئے تھے، لیکن اب سات سال ہو چکے ہیں۔ ہم بہت خوش ہیں اور میں خود کو بہت محفوظ محسوس کر رہا ہوں۔‘
قطر عمومی طور پر بہت محفوظ ملک ہے لیکن وہاں کے باشندے بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’کچھ مغربی رویے، جیسے کہ لباس پہننے کا طریقہ، قدامت پسند قطریوں کے لیے کچھ مسائل کا باعث بنا ہے۔‘
سیوبھان اور ان کی اہلیہ قطری پبلک سیکٹر کے فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایان ٹولی کے پاس جمع پونجی کا کچھ حصہ موجود ہے اور وہ ہر سال تقریباً 90 دن کی چھٹیوں کے علاوہ ویک اینڈ کا لطف اٹھاتی ہیں۔
ابتدائی طور پر، پرل بنیادی طور پر غیر ملکی کمیونٹی کا گھر تھا۔ بہت سے مغربی ممالک سے لوگ بہتر سہولیات کی تلاش میں قطر کی طرف راغب ہوئے۔
وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے گسٹاوو جارامیلو نے ہم سے قناط کوارٹرز میں بات کی۔ یہ انجینئر لا پرلا میں اپنی وینزویلا کی پارٹنر سبرینا ماسیوویچیو کے ساتھ ایک عمارت میں رہتے ہیں جس میں تالاب اور ساحل تک براہِ راست رسائی ہے۔
دونوں نے گاڑی میں ہی بی بی سی کو پرل کی سیر بھی کروائی اور یہاں رہنے سے حاصل ہونے والی خوشی کے بارے میں بھی بتایا۔
ماسیوویچیو کہتے ہیں کہ ’دوحہ اور لا پرلا میں رہنا ایک اور لیول ہے۔‘
’یہاں فلم (ویڈیو بناتے وقت) کرتے وقت محتاط رہیں کیونکہ یہ علاقہ حساس ہے۔‘ جارامیلو نے ہمیں اس وقت خبردار کیا جب ہم ایسی عمارتوں کے پاس سے گزر رہے تھے جو ان جدید ترین منصوبوں میں سے ایک تھیں جہاں خریدار انفرادی جزیرے خرید سکتے ہیں اور ان پر اپنے گھر ڈیزائن کر سکتے ہیں۔
جرمیلو توانائی کے شعبے میں کام کرتے ہیں اور ان کے پاس اپنے اپارٹمنٹ، ٹرانسپورٹیشن اور ٹیلی فون کی ادائیگی کی سہولیات ہیں۔
جارامیلو ایک بڑی سی عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک قسم کا سپر ایئر کنڈیشننگ پلانٹ ہے۔ یہاں برف کا پانی پروسیس کیا جاتا ہے اور لا پرلا میں پائپوں کے ذریعے گردش کرتا ہے اور ہر عمارت کا اس برف کے پانی کے لیے تقسیم کا اپنا نظام ہے۔‘
اسولا ڈانا اور وینیشین کوارٹر کے علاوہ، جزیرے میں ایسے اضلاع بھی شامل ہیں جن میں دفتری فلک بوس عمارتیں، کھیلوں کے میدان، رہائشی ٹاورز، اور سنگل فیملی ولاز شامل ہیں۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں سیوبھان ٹولی نے مجھے بتایا کہ ’اگر قطر ایک بلبلہ ہے تو پرل قطر کے اندر ایک بلبلہ ہے۔‘
انھوں نے یہ بات دنیا کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہی جیسے کہ وبائی بیماری اور یوکرین جنگ اور انھیں اس بات کا ادراک تھا کہ وہ ایک مختلف زندگی گزار رہے ہیں۔
مثال کے طور پر پرل کی گلیوں میں، دوحہ کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں کم لباس والی مغربی خواتین کو دیکھنا زیادہ عام ہے اور ساحل سمندر پر وہ بکنی پہنتی ہیں بغیر کسی کی توجہ مبذول کروائے۔
قطر میں ایسے جزائر کا حوالہ اکثر مقامی لوگوں اور صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں سامنے آتا ہے۔
’پرل میں سب کچھ اچھا نہیں ہے‘
سیوبھن کہتے ہیں کہ ’یہاں سب سے بری چیز مسلسل ڈرلنگ ہے۔ تعمیراتی کام ہر وقت جاری ہے۔
جارامیلو اور ماسیوویچیو ہسپتالوں اور سکولوں کی کمی کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو پیچیدہ ہے کیونکہ جزیرے تک صرف ایک طریقے سے رسائی ہے اور ٹریفک اکثر جام رہتی ہے۔
جارامیلو کہتے ہیں کہ ’لیکن اب وہ ایک بہت بڑا ہسپتال بنا رہے ہیں جس سے بہت مدد ملے گی۔‘