دوران آپریشن خواتین کی ویڈیو بنانے پر ہسپتال کا آپریشن تھیٹر سیل
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں ایک نجی ہپستال میں دوران آپریشن خواتین مریضوں کی مبینہ طور پر برہنہ ویڈیوز بنانے پر ضلعی انتظامیہ نے ہسپتال کا آپریشن تھیٹر سیل کر دیا ہے۔
اسٹنٹ کشمنر شیخوپورہ شبیر حسین بٹ کے مطابق سنبل سرجیکل نامی نجی ہسپتال کے مالک سرفراز کی جانب سے انھیں ایک درخواست موصول ہوئی تھی جس میں درخواست گزار نے ہسپتال ملازمہ کی جانب سے دوران آپریشن خواتین کی ویڈیو بنانے اور انھیں (سرفراز کو) بلیک میل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اسٹنٹ کشمنر شبیر حسین کا کہنا ہے کہ اس درخواست کے ساتھ دو ویڈیوز بھی فراہم کی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جس میں سے ایک ویڈیو میں سی سکیشن آپریشن ہو رہا تھا جو اسی ہسپتال کا آپریشن تھیٹر تھا جبکہ ایک دوسری ویڈیو میں اسقاط حمل کیا جا رہا تھا تاہم اس میں یہ پتا نہیں چل سکا کہ یہ کون سا مقام ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ویڈیوز میں خواتین مریضوں کے چہرے نہیں تھے مگر آپریشن کے لیے زخم لگائے جانے والے مناظر موجود تھے۔
شبیر حسین بٹ کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں ان ویڈیوز کی اصلیت کے بارے میں بھی تحقیقات شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس پارٹی کے ہمراہ ہسپتال پر چھاپے کے دوران دیکھا گیا کہ ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کی حالت بھی اچھی نہیں تھی جس کے بعد اس کو سیل کر کے پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مقدمہ درج کر کے تفتیش کرے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان واجد عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ واقعہ کا مقدمہ درج کر کے اس میں ملوث خاتون کو گرفتار کر کے تفتیش کے بعد جیل بھج دیا گیا ہے جبکہ اس کا موبائل فون فارانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔
مقدمے میں نامزد دوسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
مقدمہ میں کیا کہا گیا ہے؟
شیخوپورہ کے تھانہ بی ڈویثرن میں ابتدائی تفتیش کے بعد اس واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ سنبل سرجیکل ہسپتال کے مالک کی جانب سے درج کروایا گیا ہے۔ مقدمے کے مدعی محمد سرفراز کے مطابق ان کی اہلیہ جو خود ایک ایل ایچ وی ہیں سنبل سرجیکل ہسپتال چلاتی ہیں۔
محمد سرفراز نے پولیس ایف آئی آر میں ہسپتال کی ایک ملازمہ طاہرہ بی بی پر اس واقعے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اکثر زمان ڈوگر نامی شخص ملنے کے لیے آیا کرتا تھا۔ جس کو اس نے اپنا منگیتر بتایا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق تقریبًا ڈیڑھ، دو ماہ قبل طاہرہ بی بی اور زمان ڈوگر نے ملی بھگت کر کے آپریشن تھیٹر میں آپریشن کے دوران خواتین مریضوں کی برہنہ حالت میں ویڈیوز بنائیں اور ہسپتال مالک سرفراز کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
درج مقدمہ کے مطابق ہسپتال کے مالک محمد سرفرار کا کہنا ہے کہ زمان ڈوگر نے مذکورہ ویڈیوز انھیں واٹس ایپ کے ذریعے بھیجی اور مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ان ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
ابتک کی پولیس تفتیش میں کیا ہے؟
شیخوپورہ پولیس کے تھانہ بی ڈویثرن کے ایس ایچ او عامر محبوب وینس نے بی بی سی کو بتایا کہ واقعہ کے بعد سے اس مقدمے کے مدعی محمد سرفرار اور ہسپتال میں موجود تمام ڈاکٹرز زیر تفتیش ہیں۔
اس ہسپتال کے مالک محمد سرفراز جو خود ڈاکٹر نہیں ہیں تاہم انھوں نے بی فارمیسی کر رکھی ہے، سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
ایس ایچ او کے مطابق پولیس اس سارے واقعے میں ہسپتال انتظامیہ اور ان کے ڈاکٹروں کے کردار کے حوالے سے بڑی باریک بینی سے تفتیش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھا جارہا ہے کہ اسقاط حمل والی ویڈیو میں کون موجود تھا۔ کس مقام پر بنائی گئی ہے اور آپریشن کون کر رہا تھا۔ اسی طرح اس بات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ ہسپتال میں کوئی غیر قانونی کام تو نہیں ہو رہے تھے۔‘
اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’واقعہ کا ابتدائی مقدمہ جو ہسپتال انتظامیہ کی مدعیت میں درج گیا ہے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ صرف خواتین کی ویڈیوز بنانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بات اس سے زیادہ ہے۔‘
تفتیش کرنے والے اہلکار کے مطابق ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں ممکنہ طور پر ہسپتال کے اندر کچھ غیر قانونی کام ہو رہے تھے۔ ہسپتال میں ہونے والے ان کاموں کی تفصیل جب ملزمہ طاہرہ بی بی اور زمان ڈوگر کو ملیں تو انھوں نے ہسپتال انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیوز بنائی۔‘
پولیس کے تفتیشی اہلکار کے مطابق ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
ہسپتال مالک محمد سرفراز کا موقف
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر ہسپتال مالک محمد سرفراز نے دونوں ویڈیوز بنانے کا الزام ہسپتال کی ملازمہ طاہرہ بی بی پر عائد کیا۔ شیخوپورہ پولیس اور اتنظامیہ کے موقف کے برعکس محمد سرفراز نے تسلیم کیا کہ دونوں ویڈیوز ان ہی کے ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں بنائی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمہ طاہرہ بی بی نے پہلی ویڈیو آپریشن کے بعد صفائی کے لیے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو کر بنائی تھی۔ جبکہ دوسری ویڈیو(جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسقاط حمل کی ویڈیو ہے) ملزمہ نے آپریشن تھیٹر کے ادھ کھلے دروازے سے بنائی تھی۔
ہسپتال مالک سرفراز نے بتایا کہ ‘یہ کوئی غیر قانونی آپریشن نہیں تھا بلکہ مریضہ تین چار ماہ کی حاملہ تھیں اور ان کا کیس بگڑ گیا تھا جس کی وجہ سے حمل گرانا پڑا، یہ آپریشن ایک سنیئر ایف سی پی ایس ڈاکٹر نے کیا۔’
محمد سرفرار کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج کروانے سے پہلے ملزمہ نے ان کو دو مرتبہ بلیک میل کر کے ایک ایک لاکھ روپے لیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پیسے میں نے اس لیے دیے کہ اس سے ہمارے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹروں کی بدنامی نہ ہو مگر وہ تو بڑھتی ہی جارہی تھی۔ جب اس نے تیسری مرتبہ مجھے بلیک میل کرنا چاہا تو میں نے انتظامیہ کو درخواست دے دی۔‘
محمد سرفرار کا کہنا تھا کہ ہسپتال اس کی اہلیہ کے نام پر ہیں اور محکمہ صحت نے ہسپتال کو باقاعدہ منظور رکھا ہے۔ اس کا رجسڑیشن نمبر 16031 ہے۔
صرف آپریشن تھیٹر ہی کیوں سیل کیا گیا؟
محکمہ صحت شیخوپورہ کے انچارج ڈاکٹر صدیق احمد کا محمد سرفرار کے دعوے کے برعکس کہنا تھا کہ ہسپتال کبھی بھی رجسڑڈ نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہسپتال کو اس لیے سیل نہیں کیا کیونکہ جب ہم نے پولیس، انتظامیہ کے ہمراہ ہسپتال پر چھاپہ مارا تو اس وقت تین، چار ایم بی بی ایس ڈاکٹر موقع پر پہنچ گئے تھے۔ُ
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے قانونی طور پر یہ ممکن نہیں تھا کہ جہاں پر ایم بی بی ایس ڈاکٹر پریکٹس کر رہے ہیں اس جگہ کو سیل کرسکتے لہذا ہم نے آپریشن تھیٹر کو سیل کر دیا۔‘
محکمہ صحت کے ڈاکٹر صدیق احمد کے مطابق انھوں نے اس ہسپتال کا معاملہ متعلقہ میڈیکل اتھارٹی کو بھیج دیا ہے۔
ڈاکٹر صدیق احمد کا کہنا تھا کہ ‘ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے پریکٹس کی اجازت دی ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو سیل نہیں کیا جاسکتا۔’