پاکستان

پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا معاملہ: کیا پی ٹی آئی اور ق لیگ اتحاد اختلافات کا شکار ہے؟

Share

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جلد نئے عام انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ان کا کہنا ہے وہ ان دونوں اسمبلیوں کو تحلیل بھی کر سکتے ہیں جن میں ان کی حکومت ہے، یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس حکمتِ عملی سے وہ وفاقی حکومت کو پورے ملک میں قبل از وقت انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں۔

تاہم صوبہ پنجاب میں دقت یہ ہے کہ صوبے میں حکومت تو عمران خان کی جماعت کی ہے تاہم وزیرِاعلٰی ان کی جماعت سے نہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ق سے ہے جو پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ہے۔

پنجاب کی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے پاس ہے۔ کیا وہ عمران خان کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کریں گے؟

گزشتہ ماہ جیسے ہی عمران خان نے راولپنڈی کے جلسے میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی حکمتِ عملی کا اعلان کیا، چوہدری پرویز الٰہی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ’عمران خان کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کریں گے۔‘

چند روز گزرنے کے بعد حال ہی میں مقامی ٹی وی چینلز پر انٹریوز کے دوران وہ اب بھی اپنے اس بیان پر قائم نظر آئے تاہم ساتھ ہی ان کے خیالات میں تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ’اگلے کم از کم چار ماہ سے پہلے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔ انتخابات آئندہ برس اکتوبر سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔‘

ایک انٹرویو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زخمی ہونے کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نقل و حرکت بھی اگلے چند ماہ تک محدود رہے گی۔

خیال رہے کہ دوسری طرف حال ہی میں عمران خان اپنی جماعت کے قائدین اور کارکنان کو حلقوں میں جانے اور انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایات دے چکے ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو کے دوران یہ بھی بتایا کہ ’سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انھیں پی ٹی آئی کی طرف جانے کا کہا تھا۔ اللہ نے ہمارا راستہ تبدیل کیا اور جنرل باجوہ کو بھیجا، ورنہ ہم پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف جا رہے تھے۔‘

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ سابق آرمی چیف نے ان کی جماعت کے اتحادیوں کو ان کا ساتھ چھوڑنے کے لے دباؤ ڈالا۔ عمران خان کے مطابق اسی طرح ق لیگ کی آدھی قیادت کی پی ٹی آئی جبکہ آدھی کو اس وقت کی حزبِ اختلاف کی طرف جانے کا کہا گیا۔

عمران خان

چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو میں اس کی بھی وضاحت کے ساتھ تردید کی۔ انھوں نے کہ ’میں نے خود (سابق آرمی چیف) جنرل باجوہ کو کال کی تھی، ادارے نے کہا کہ عمران کے ساتھ جانا بہتر ہے۔‘

اس سے قبل عمران خان کہہ چکے تھے کہ ’سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دینا ان کی غلطی تھی۔‘

بظاہر پرویز الٰہی اور عمران خان تمام سیاسی معاملات پر ہم خیال نظر آتے ہیں تاہم کیا وزیرِاعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے متضاد حالیہ بیانات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اور اگر ایسا ہے تو یہ عمران خان کی جلد انتخابات کی تاریخ حاصل کرنے کی حکمتِ عملی پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

کیا وزیرِاعلٰی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ہدایت پر عمل کریں گے؟

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ وزیرِاعلٰی چوہدری پرویز الٰہی ایسا ہی کریں۔ ’اگر عمران خان انھیں پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا کہتے ہیں تو پرویز الٰہی اس پر عملدرآمد کریں گے۔‘

’وہ ان کو سمجھانے کی تمام تر کوشش کریں گے کہ اسمبلی تحلیل نہ کی جائے لیکن اگر اس کے باوجود بھی عمران خان اپنی بات کر قائم رہتے ہیں تو میرے خیال میں پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔‘

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کے حالیہ بیانات سے یہ مطلب اخذ کرنا ممکن نہیں کہ ان کے اور پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات ہو گئے ہیں۔

’ان دونوں کو پتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے۔ پی ٹی آئی پرویز الٰہی اور ان کی جماعت کی حمایت کے بغیر حکومت میں نہیں رہ سکتی اور پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت کے بغیر وزیرِاعلٰی نہیں رہ سکتے۔‘

اس لیے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں چوہدری پرویز الٰہی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے عمران خان کی مخالفت مول لینا پڑے۔

پاکستان

کیا پی ٹی آئی کی قیادت بھی ایسا سمجھتی ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے زیادہ تر رہنما کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے درمیان اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں تاہم وزیرِاعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کو لے کر پی ٹی آئی کی قیادت میں ابہام پایا جاتا ہے۔

ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا خیال تھا کہ ’پرویز الٰہی ہر کام اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ کر اور ان کو بتا کر کرتے ہیں اور میرے خیال میں اب بھی وہ وہی کریں گے جو اسٹیبلشمنٹ انھیں کہے گی۔‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اعجاز چوہدری کے خیال میں ’پرویز الٰہی کے حالیہ انٹریوز میں بیانات بھی شاید اسی وجہ سے ہیں کہ وہ نئی فوجی قیادت کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘

’ان کے تمام تر بیانات پی ٹی آئی کے مفاد میں نہیں۔ یہ پی ڈی ایم کے مفاد میں تو ہو سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے مفاد میں نہیں۔ میرا ان کو مشورہ ہو گا کہ وہ ایسے بیانات دینے سے گریز کریں۔‘

وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے سابق وفاقی وزیر چوہدری مونس الٰہی کی طرف سے حالیہ انٹرویوز کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیئر رہنما فواد چوہدری نے لاہور میں چوہدری پرویز الٰہی سے پیر کے روز ملاقات کی۔

اس ملاقات کے فوری بعد وہ چیئرمین عمران خان سے ملنے زمان پارک پہنچے۔ واپسی پر مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے بتایا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ عمران خان جب کہیں گے وہ اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔‘

’پرویز الٰہی بنیادی طور پر درست بات کر رہے ہیں‘

ق لیگ کے ایک رہنما نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی کی طرف سے حالیہ انٹرویوز سوچ سمجھ کر دیے گئے تاہم وہ فوری طور پر اس حوالے سے مزید انٹرویوز نہیں دے رہے۔

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اتحاد میں اس وقت پرویز الٰہی وہ شخصیت ہیں جو درست بات کر رہے ہیں۔

’وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کو قبل از وقت انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے لہذا ایسی صورتحال میں مستعفی ہو کر ان اسمبلیوں میں نکل جانا جہاں ان کی حکومت ہے پی ٹی آئی کے لیے دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔‘

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ بظاہر پرویز الٰہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ عمران خان جب انھیں کہیں گے وہ اسمبلی تحلیل کر دیں گے ’لیکن اندر نجی طور پر وہ ضرور عمران خان اور پی ٹی آئی کو یہ کہہ چکے ہوں گے کہ اسمبلی تحلیل کرنا درست فیصلہ نہیں۔‘

تاہم حتمی فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان نے دسمبر کی سات تاریخ سے 10 روز کے لیے ملک بھر میں جلد انتخابات کے مطالبے کے لیے مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے جماعت کے کارکنان کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

ساتھ ہی پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے تصدیق کی ہے کہ ان کے جماعت کے وفاقی حکومت کے ساتھ غیر رسمی روابط جاری ہیں۔

عمران خان

وزیرِاعلٰی پنجاب کو متضاد بیانات دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ق لیگ اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان اختلاف بنیادی طور پر تین باتوں کے ارد گرد ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’چوہدری پرویز الٰہی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے اچھے تعلقات رکھے جائیں لیکن پی ٹی آئی کے ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔‘

’چوہدری پرویز الٰہی سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے کردار کے بھی بہت معترف رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی میں کچھ لوگ سابق آرمی چیف کے کردار کے مخالف بھی بیانات دیتے رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک رہیں۔‘

تاہم ایسا ہوتا ہوا فوری طور پر دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی قیادت میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کو فوری طور پر اسمبلیوں میں سے نکل جانا چاہیے اور انتخابات کے لیے جانا چاہیے۔

سہیل وڑائچ کے خیال میں پرویز الٰہی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ’غالباً ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر اسمبلیوں سے نکل کر بھی جلد انتخابات کا مقصد پورا نہ ہوا تو پی ٹی آئی کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ فوری طور پر اسمبلی کی تحلیل کے بھی حق میں نہیں۔

کیا یہ اختلافات ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اتحاد پر اثرانداز ہو سکتے ہیں؟

پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما فواد چوہدری کے مطابق ق لیگ اور پاکستان تحریکِ انصاف اتحادی جماعتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان کوئی اختلافات نہیں۔

’چوہدری پرویز الٰہی ہر طرح سے عمران خان کے بیانیے کے حامی ہیں اور اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں چوہدری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی کے درمیان پائے جانے والی بنیادی تین تضادات کی نوعیت ایسی نہیں کہ انھیں کسی بڑے پیمانے کے اختلافات کہا جائے۔

’یہ کوئی ایسے اختلافات نہیں کہ بات ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑنے کی طرف جائے۔ میرے خیال میں کم از کم مستقبل قریب میں تو ایسے امکانات نظر نہیں آتے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کو کوئی فرق پڑے گا۔‘

سہیل وڑائچ کے خیال میں اختلافِ رائے کی بنیاد پر دونوں جماعتوں کے درمیان متضاد بیانات کا تبادلہ ہوتا رہے گا لیکن معاملات ایسے ہی آگے چلتے رہیں گے۔