صحت

پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص کا آسان طریقہ دریافت

Share

امریکی و برطانوی ماہرین نے مشترکہ کاوشوں سے پھیپھڑوں کے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے اب تک کا سب سے آسان طریقہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس وقت پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص کے لیے سی ٹی اسکین سمیت خون کے کچھ ٹیسٹس کیے جاتے ہیں، تاہم ایسے ٹیسٹس سے مرض کی تشخیص میں کافی دیر ہوجاتی ہے۔

لیکن اب ماہرین نے ایک ایسا نیا طریقہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس سے مرض کے آغاز میں ہی اس کی تشخیص کرنا ممکن ہوگی۔

طبی جریدے ’پلوس‘ میں شائع تحقیق کے مطابق امریکا، برطانیہ اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے ماہرین نے نیا طریقہ دریافت کرنے کے لیے 414 افراد کے سانس کے ٹیسٹس کیے۔

ان میں سے زیادہ تر یعنی 156 افراد ایسے تھے، جنہیں کینسر لاحق تھا مگر ان کا علاج نہیں کیا گیا تھا۔

تحقیق میں شامل 113 افراد ایسے تھے، جنہیں ان خاندانون سے منتخب کیا گیا تھا، جن کے خاندان میں پھیپھڑوں کے کینسر کی ہسٹری رہی تھی اور وہ سگریٹ نوشی بھی کرتے تھے۔

جب کہ تحقیق میں شامل 80 رضاکار بلکل صحت مند تھے، وہ سگریٹ نوشی بھی نہیں کرتے تھے جب کہ 65 رضاکاروں کے پھیپھڑوں میں بنائن نوڈز پائے گئے۔

ماہرین نے تمام رضاکاروں کے سانس کے ٹیسٹس کیے اور سانس جانچنے والی مشین کے ذریعے ان کی سانس میں خصوصی کیمیکملز کی موجودگی کو نوٹ کیا۔

ماہرین کے مطابق جن افراد کے سانس میں انسانی جسم اور خون میں پائے جانے والے (Volatile Organic Compounds) وی او ایس کیمیمکلز موجود تھے، ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ سانس جانچنے والی کمپیوٹرائزڈ مشین میں انسانی سانس میں 7 اقسام کے کیمیکلز کی موجودگی کا مطلب اس میں کینسر کی تشخیص ہے۔

یعنی اگر مشین میں کسی بھی انسان کے سانس میں سات اقسام کے کیمیکلز کی موجودگی پائی گئی تو ان میں پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوگی۔

تاہم دوسری جانب پھیپھڑوں کے کینسر پر طویل عرصے سے تحقیق کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ جن سات کیمیکلز کی بات کی جا رہی ہے، وہ دوسری مختلف وجوہات کی وجہ سے بھی انسانی سانس سے خارج ہو سکتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق انسانی جسم یا خون سے خارج ہونے والی تمام کیمیکلز پھیپھڑوں میں جمع ہونے کے بعد سانس کے ذریعے باہر نکلتی ہیں، اس لیے عام طور پر سانس سے بیک وقت خارج ہونے والی مختلف کیمیکلز کا مطلب کینسر نہیں ہوتا۔

ماہرین نے پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص کے دریافت کیے گئے نئے طریقہ علاج پر مزید تحقیق کی ضرورت پر بھی زور دیا۔